بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشیدگی میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورت حال کے باعث جہاں سیاح اور امرناتھ یاترا پر آئے یاتری دورہ مختصر کرکے واپس چلے گئے ہیں وہیں غیر مقامی مزدور، کاریگر اور تاجر بھی وادی چھوڑ کر آبائی ریاستوں کو جا رہے ہیں۔
ہر سال موسمِ بہار کی آمد پر بہار، اُتر پردیش، مغربی بنگال اور دیگر ریاستوں سے لاتعداد کاریگر اور مزدور بہتر روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے اہل خانہ کے ہمراہ کشمیر کا رخ کرتے ہیں جبکہ موسم بدلتے ہی یہ لوگ واپس چلے جاتے ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق 2 اگست تک کم سے کم چار لاکھ غیر مقامی مزدور اور کاریگر وادی میں موجود تھے، جنہوں نے اب وادی چھوڑ دی ہے اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں ۔
گزشتہ دس روز کے دوران مسلسل کرفیو اور نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کے ساتھ احتجاج کرنے والوں کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن اور مواصلاتی ذرائع بند رکھنے سے پیدا شدہ گھمبیر صورتِ حال کے پیشِ ںظر محنت کش طبقے اور غیر مقامی افراد کی اکثریت وادی چھوڑ کر جا چکی ہے۔
یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کو حفاظتی دستوں نے ایسا کرنے کے لیے کہا تھا۔
دوسری جانب کئی افراد کو مقامی باشندوں نے بھی وادی سے نکل جانے پر مجبور کیا ہے۔ ان میں 55 سالہ محمد اکبر بھی شامل تھے۔
اُتر پردیش کے ضلع بجنور سے تعلق رکھنے والے محمد اکبر سری نگر کے خان یار کے علاقے میں گزشتہ دو دہائیوں سے حلوائی کی دکان چلا رہے تھے۔
محمد اکبر دکان کے ساتھ واقع اسی عمارت کے ایک کمرے میں اپنے بیوی بچوں سمیت رہائش پذیر بھی تھے۔ انہیں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کئی دہائیوں سے جاری شورش کے باوجود کبھی کسی بڑی تکلیف یا مشکل صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ یہاں تک کہ جولائی 2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے نتیجے میں تقریباً چھ ماہ تک جاری رہنے والی بدامنی کا بھی انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سمیت بالکل اُسی طرح مقابلہ کیا تھا جس طرح مقامی باشندوں نے کیا تھا۔
کشمیریوں کے خدشات
بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے سے متعلق قرار داد کے بھارتی پارلیمنٹ میں پاس ہونے کے ایک دن بعد محمد اکبر نے ایک مقامی شخص کے ساتھ گفتگو کے دوراں بظاہر مذاق میں کہہ دیا تھا کہ "اب مجھے یہاں سے کوئی نہیں نکال سکتا۔"
بات فوری طور پر علاقے میں پھیل گئی اور اگلی صبح مالکِ مکان نے محمد اکبر کو دکان اور کمرہ 24 گھنٹے کے اندر خالی کرنے کے لیے کا کہہ دیا۔
سری نگر ہی کے بژھ پورہ علاقے میں واقع ایک مسجد میں گزشتہ 32 برس سے امام کے طور پر مامور اُتر پردیش ہی کے مولوی تصدق حسین کو بھی مقامی نوجوانوں نے وادی سے چلے جانے کے لیے کہا جس پر انہوں نے فوری طور پر عمل کیا۔
حسین اور اُن کے اہل خانہ ایک ایسے مکان میں رہائش پذیر تھے جو ایک مقامی ڈاکٹر نے انہیں نئے گھر میں منتقل ہونے کے بعد تحفے کے طور پر دیا تھا۔ لیکن اسٹیٹ سبجیکٹ لا کی وجہ سے انہیں اس پر مالکانہ حقوق حاصل نہیں تھے۔
دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کیا تھے؟
واضح رہے کہ بھارت کے آئین سے حالیہ دنوں میں ختم کی گئی دفعہ 370 کے تحت ریاست کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔
دفعہ 370 کی ایک ذیلی شق دفعہ 35 اے تھی جسے 1954 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئینِ میں شامل کیا گیا تھا۔
دفعہ 35 اے کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائداد خریدنے، سرکاری نوکریاں، وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔
نیز دفعہ 35-اے کے تحت جموں و کشمیر کے آبائی باشندوں کا انتخاب اور ان کے لیے خصوصی حقوق و استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی اسمبلی کو حاصل تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دفعہ 35-اے کو منسوخ کیے جانے کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں 1927 سے نافذ وہ قانون کمزور پڑ گیا ہے جس کے تحت صرف اس کے مستقل باشندے ہی ریاست میں جائیدار خرید اور بیچ سکتے تھےجبکہ سرکاری ملازمتیں حاصل کر سکتے تھے۔
مقامی لوگ، عوامی نمائندے اور ناقدین یہ کہتے ہیں کہ دفعہ 35-اے کو منسوخ کرنے کے پیچھے مسلم اکثریتی ریاست کی آبادیات کو تبدیل کرنے کے لیے راہ ہموار کرنے کا مقصد کار فرما ہے۔
وہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اب غیر ریاستی باشندے بالخصوص بھارتی سرمایہ دار کشمیر میں اراضی اور رئیل اسٹیٹ پر قابض ہونے کی کوشش کریں گے۔
ان خدشات کو اُس وقت تقویت بھی ملی جب بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے دفعہ 370 کو ہٹانے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس سے وفاق کے زیرِ انتظام لداخ اور جموں و کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کا کام آسان ہوجائے گا۔
اس حوالے سے ہندو اکثریتی جموں کے بعض حلقے بالخصوص موروثی ڈوگرے بھی تحفظات اور خدشات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئر مقامی لیڈر اور ریاست اسمبلی کے سابق اسپیکر ڈاکٹر نرمل سنگھ نے ایک بیان میں یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی جماعت وفاقی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ متعلقہ قانون میں ایک ایسی شق شامل کی جائے جس کی بدولت جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو اور صرف وہ لوگ زمینیں خریدنے اور سرکاری نوکریاں حاصل کرنے کے اہل قرار دئیے جائیں جو ریاست میں ایک خاص مدت سے رہائش پذیر رہے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کا قانون ہماچل پردیش اور چند دوسری ریاستوں میں پہلے سے نافذ ہے۔