رسائی کے لنکس

قدیم انسان کی خوراک سانپ اور چھپکلیاں تھیں!


آج سے 15 ہزار سال پہلے مشرق وسطیٰ کے بعض علاقوں میں سانپ اور چھپکلیاں انسان کی پسندیدہ غذا تھی، جس کا اندازہ ان باقیات اور ہڈیوں سے ہوتا ہے جو آثار قدیمہ کے ماہرین کو قدیم انسانی بستیوں کی کھدائی کے دوران ملی ہیں۔

انسان بنیادی طور پر ایک شکاری اور گوشت خور جاندار ہے۔ نباتات اور دوسری اشیا اس کی خوراک میں بہت بعد میں شامل ہوئیں۔ قدیم انسانی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریباً 9 ہزار سال پہلے کی انسانی باقیات کے ریڈیو کاربن تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ اس کی خوراک میں گوشت کے ساتھ ساتھ جنگلی پھل، میوہ جات اور مکئی سے ملتی جلتی قدیم اجناس شامل ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ لیکن اس سے پہلے انسان کلی طور پر شکار اور گوشت پر انحصار کرتا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج جس خطے میں فلسطین، اسرائیل، لبنان اور شام واقع ہیں، وہاں قدیم دور کی انسانی خوراک میں جس چیز کا زیادہ استعمال ہوتا تھا، وہ سانپ، چھپکلیاں اور اس کی نسل کے دیگر رینگنے والے جانور تھے۔

شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ سانپ یا چھپکلی کا شکار کرنا جنگل میں جا کر کسی جانور کو مارنے کی نسبت زیادہ آسان تھا، کیونکہ 15 ہزار سال پہلے کے انسان کے پاس شکار کرنے کے لیے آلات اور وسائل نہیں تھے اور محض پتھر اور ڈنڈے ہی اس کا ہتھیار تھے۔

اسرائیل کی یونیورسٹی آف حیفا کے ماہرین آثار قدیمہ کو کوہ کرمل کے علاقے میں قدیم انسانی بستیوں کی کھدائی کے دوران بڑی تعداد میں سانپوں اور چھپکلیوں کی ہڈیاں اور باقیات ملی ہیں، جن کا انداز ایسا ہے کہ انہیں کھانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

ان قدیم انسانی بستیوں کا زمانہ 15 ہزار سے لے کر 10 ہزار سال پہلے کا ہے۔ ان آبادیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقے میں انسان نے خانہ بدوشی ترک کر کے چھوٹی چھوٹی بستیوں کی شکل میں رہائش اختیار کر لی تھی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ابتدائی انسانی بستیاں اس جگہ قائم ہوئیں جہاں قرب و جوار میں خوراک کافی مقدار میں موجود تھی اور خوراک کی تلاش کے لیے اسے زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی تھی۔

انسان نے مستقل آبادیاں اس وقت قائم کیں جب اجناس اس کی خوراک کا حصہ بنے اور اس نے خود رو پودوں پر انحصار کرنے کی بجائے اناج اور دوسری فصلیں خود اگانی شروع کیں۔ یہ بستیاں زیادہ تر ان علاقوں میں بنیں جہاں پانی موجود تھا اور موسم اجناس کی پیداوار کے لیے سازگار تھا۔

حیفا یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جبل کرمل کی 15000 سال پرانی انسانی بستی میں بڑی تعداد میں سانپوں اور چھپکلیوں کا ملنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان کی روایات اور کم مشقت والی طرز زندگی کا حصہ تھے۔

یونیورسٹی کے ایک ماہر ریوین یشورون کا کہنا ہے کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی تاریخ کے وسطی ادوار میں لوگ سانپ کھاتے تھے، لیکن اس بارے میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا کہ 15000 سال پہلے سانپ ان کی خوراک کا حصہ تھے۔ ہم نے اپنی تحقیق کے دوران جو طریقہ کار اختیار کیا ہے، اس کے ذریعے ہم اس سے بھی زیادہ قدیم ادوار میں انسانی خوراک کے متعلق جان سکتے ہیں۔

حیفا یونیورسٹی کے ماہرین نے جس جگہ کھدائی کی ہے، اسے مشرق وسطیٰ کی قدیم تہذہب نطوفیہ کا ابتدائی دور کہا جا سکتا ہے۔ نطوفیہ تہذیب کا زمانہ 12500 سے 10200 سال قبل کا ہے۔ یہ لوگ شکار کرتے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے گندم، جوار اور بادام اگانا بھی سیکھ لیا تھا۔

اس مقام پر قدیم دور کے گھروں کی باقیات سے زمین پر کثیر تعداد میں سانپوں اور چھپکلیوں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ یہ ہڈیاں قدرتی عمل کا حصہ ہوں اور سانپ وہاں رہتے ہوں۔ تاہم، قرین قیاس یہی ہے کہ سانپ ان کی خوراک کا حصہ تھے، کیونکہ ان ہڈیوں میں نسبتاً بڑے جانوروں کی ہڈیاں بھی شامل ہیں جن میں زیادہ تر خرگوش کی ہڈیاں ہیں۔ ان کی باقیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں مار کر پکایا جاتا تھا۔ تاہم، سانپ اور چھپکلیوں کی ہڈیاں بہت چھوٹے سائز کی ہیں، اور ان پر پکانے وغیرہ کے نشانات بھی نہیں ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ وقت گزرنے کے ساتھ ہونے والی شکست و ریخت ہے، جس نے ہڈیوں کی سطح سے نشانات اور علامتیں مٹا دی ہوں۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سانپ کو پکانے سے پہلے اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہو، کیونکہ وہاں سے مختلف اقسام کے سانپوں کی ہڈیاں ملی ہیں، جن میں زہریلے سانپ بھی شامل ہیں۔ یہ یاد رہے کہ زہر کی تھیلی سانپ کے منہ میں ہوتی ہے۔ بصورت دیگر خرگوش کی ہڈیوں کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر سانپوں اور چھپکلیوں کی ہڈیوں کے ملنے کا کوئی اور جواز سمجھ میں نہیں آتا۔

حیفا یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی آبادیوں میں سے سانپوں، چھپکلیوں اور خرگوش کی ہڈیوں کے ملنے سے پتا چلتا ہے کہ انسان وقت گزرنے کے ساتھ تن آسانی کی جانب مائل ہوتا گیا۔ اس نے مشکل سے ہاتھ آنے والے جانوروں کا شکار چھوڑ کر خرگوش اور سانپ کھانا معمول بنا لیا تھا۔ خانہ بدوشی ترک کر دی اور مستقل رہنے کے لیے جھونپڑیاں بنا لیں اور پھر مزید آسانی کے لیے اناج، پھل اور سبزیاں اگانا اور کھانا شروع کر دیا۔ ان کو ذخیرہ کیا جا سکتا تھا اور بھوک لگنے پر کھایا جا سکتا تھا، نہ یہ کہ شکار کی تلاش میں مارا مارا پھرا جائے۔ اور پھر آنے والے زمانوں میں شکار خوراک کے حصول کے ذریعے کی بجائے محض ایک مشغلہ بن کر رہ گیا۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG