رسائی کے لنکس

سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سرمد سلطان دو روز 'غائب' رہنے کے بعد گھر پہنچ گئے


سرمد سلطان فائل فوٹو
سرمد سلطان فائل فوٹو

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوان سرمد سلطان دو روز 'لاپتا' رہنے کے بعد ہفتے کو گھر پہنچ گئے۔

ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں سرمد سلطان نے بتایا کہ "میں سرمد سلطان آپ کی دعاؤں، آپ کی کوششوں کے بعد صحیح سلامت آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔"

سرمد سلطان نے مزید کہا کہ "میرے ساتھ، میرے چھوٹے بھائی اور میرے اہلِ خانہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس ریاست اور اس کے اداروں پر لگا ہوا سوالیہ نشان ہے۔ یہ ریاست کے اہم ستونوں پر لگا ہوا سوالیہ نشان ہے، اس سوالیہ نشان کا جواب کون دے گا؟ میں، آپ، ریاست یا کوئی اور سوچیں۔"

خیال رہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ناقد سمجھے جانے والے سرمد سلطان چند روز سے لاپتا تھے جس کے بعد اُن کی بازیابی کے لیے سوشل میڈیا پر مختلف حلقوں کی جانب سے آواز اُٹھائی جا رہی تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سرمد سلطان کے لاپتا ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔

سرمد سلطان کے اکاؤنٹ سے 30 مارچ کو اُن کی اہلیہ نے ایک ٹوئٹ کی جس میں بتایا گیا کہ 30 مارچ کی شب سرمد سلطان کے گھر پر اُن پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں اُن کے چھوٹے بھائی شدید زخمی ہو گئے، تاہم اب اُن کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

ٹوئٹ میں سرمد کے بھائی سچل سلطان کی تصویر بھی لگائی گئی ہے جس میں اُن کے سر پر پٹی بندھی ہوئی ہوئی ہے۔

ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ اہلِ خانہ کے شور مچانے پر حملہ آور یہ کہتے ہوئے فرار ہو گئے اگر سرمد اپنی تحریروں سے باز نہ آئے تو اُن کی لاش بھی نہیں ملے گی۔

سرمد سلطان کی بازیابی کے بعد ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے ٹوئٹ کی کہ مجھے بعض سماجی کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا کہا گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعے کی معلومات حاصل کر رہی ہیں جب کہ سرمد کے بھائی کی جانب سے درج کرائی گئی رپورٹ کی کاپی بھی اُنہیں موصول ہو گئی ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ سرمد واپس گھر پہنچ گئے ہیں۔

سرمد سلطان کے ٹوئٹر پر 48ہزار سے زائد فالورز ہیں۔ ان کی ٹوئٹس میں تاریخ کے حوالے سے مختلف تحقیقاتی موضوعات کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ریاستی اداروں پر تنقید بھی ہوتی تھی۔

سرمد سلطان کے لاپتا ہونے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی سرمد سلطان کے حوالے سے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسی نظام کے خلاف تو ان کی جنگ ہے جہاں ایک مختلف رائے رکھنے والے کو اس طرح دن دیہاڑے غائب کر دیا جاتا ہے۔


پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی سرمد سلطان کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

دوسری جانب سینئر صحافی حامد میر نے ٹوئٹ کی کہ افسوس پاکستان میں اختلاف رائے کو دشمنی بنا دیا جاتا ہے۔ اختلاف کرنے والوں کو پہلے کرایے کے لوگوں سے گالیاں اور دھمکیاں دلوائی جاتی ہیں اور اگر وہ خاموش ہونے سے انکار کرتے ہیں تو پھر کرایے کے قاتل تلاش کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں ماضی میں بھی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے علاوہ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لاپتا ہونے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔

البتہ، حکومت کی جانب سے متعدد مواقع پر ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سماجی کارکن ان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG