ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں فوجی قافلے پر حملے کے بعد سے برصغیر میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اس حملے میں 49 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے اور اس کی ذمے داری جیش محمد نے قبول کی تھی، جس کے سربراہ مسعود اظہر پاکستان میں رہتے ہیں۔
حملے کے بعد پورے ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور پاکستان کو ’’سبق سکھانے‘‘ کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ان کے ’’سینے میں آگ لگی ہوئی ہے‘‘ اور انھوں نے ’’فوج کو کوئی بھی کارروائی کرنے کا اختیار‘‘ دے دیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ کسی حملے کی صورت میں سخت جواب دیا جائے گا۔
دونوں ملکوں کا میڈیا اس صورتحال کی بھرپور کوریج کر رہا ہے اور تقریباً ہر ٹاک شو کا موضوع یہی ہے۔ یہ میڈیا پاک بھارت کرکٹ میچ سے پہلے طویل خصوصی نشریات پیش کرتا ہے، چاہے بارش کی وجہ سے ایک بھی گیند نہ پھینکی جاسکے۔ اسی طرح آج کل ہر چینل پر خصوصی نشریات پیش کی جا رہی ہے، اگرچہ ہر امن پسند دعا کر رہا ہے کہ کوئی ان ہونی نہ ہو۔
ٹوئیٹر پر مختلف موضوعات پر اعداد و شمار پیش کرنے والے ’اسپیکٹیٹر انڈیکس‘ نے آج تفصیل دی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کا دفاعی بجٹ کتنا ہے اور فوجی طاقت کس قدر ہے۔
تو کیا واقعی پاکستان اور ہندوستان پانچویں جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں؟ پتا نہیں۔ لیکن، سوشل میڈیا پر دونوں ملکوں کے کی بورڈ مجاہدین کی جنگ زور و شور سے چل رہی ہے۔
ہندوستان والوں نے اُس وقت پاکستان کا مذاق اڑایا جب گوگل پر کسی نے لکھا، ’بیسٹ ٹوائلٹ پیپر ان دا ورلڈ‘ اور سامنے پاکستانی پرچم کی تصویر آگئی۔ ماضی میں یہی گوگل دنیا کے 10 بڑے جرائم پیشہ افراد کی فہرست میں وزیر اعظم مودی کا نام بھی دے چکا ہے۔
سرحد پار ہندوستان میں جذبات کیسے ہی بھڑکے ہوئے ہوں، پاکستان میں جنگ سے کوئی خوف زدہ نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر لوگ طرح طرح کے لطیفے بنا رہے ہیں اور جگتیں مار رہے ہیں۔
خدا جانے کس فنکار نے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کی تصویر کے ساتھ اشتہار بنایا کہ ہندوستان کے ٹکڑے ٹکرے کردیے جائیں گے، پانچ، دس مرلے اور ایک ایک کنال کے۔
مائیکل صدیقی نے فیس بک پر لکھا، ’لیٹس کرش انڈیا‘۔ اب یہ کون پوچھے کہ اس کا مطلب انڈیا کو تباہ کرنے کی ترغیب دینا ہے یا محبت کرنا۔
خرم بٹ نے کسی کا جملہ اڑایا کہ ’بھارت جس ملک کو دھمکی دے رہا ہے اس کا تو چاول بھی کرنل ہے‘۔
گزشتہ روز انڈیا کے دو لڑاکا طیارے آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوگئے۔ کامران مبشر نے لکھا کہ آئی ایس آئی نے پاکستان سے تیز ہوائیں بھیجیں، جس کی وجہ سے جنگی طیارے آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوئے، بھارتی میڈیا کا الزام۔
لوگ اس موقع پر بھی اپنے اداروں کا مضحکہ اڑانے سے باز نہیں آئے اور ایک نوجوان نے لکھا، ’گل خان انڈیا سے جنگ کے لیے جا رہا تھا۔ لیکن چیک پوسٹ پر روکا گیا تو پتا چلا کہ اس کا شناختی کارڈ بلاک ہے‘۔
مذاق اپنی جگہ، لیکن دونوں ملکوں کے سمجھ دار لوگ انتہا پسندانہ رویے کی مذمت کر رہے ہیں اور امن کو فروغ دینے کی تحریک چلا رہے ہیں۔
’امن کی آشا‘ نام کے پیج پر دونوں ملکوں کے غریب بچوں کی تصویریں لگائی گئیں جو پرچم بیچ رہے ہیں اور اس پر لکھا ہے، ’دو جوہری طاقتیں ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لیے تیار!‘
رام سبرامنین نے ٹوئیٹر پر تجویز دی کہ ’جو لوگ جنگ کے خواہش مند ہیں انھیں بندوق دے کر سرحد پر بھیج دیا جائے۔ اس سے آبادی بھی کم ہوگی اور وہی لوگ بچیں گے جن کے پاس دماغ ہے‘۔
سوشل میڈیا پر ایک مہم بھی شروع کی گئی ہے جس میں پاکستانی نوجوان ایک پلے کارڈ اٹھا کر اپنے فوٹو پوسٹ کر رہے ہیں۔ اس پلے کارڈ پر لکھا جاتا ہے، ’میں پاکستانی ہوں اور پلوامہ میں دہشت گرد حملے کی مذمت کرتا ہوں‘۔