رسائی کے لنکس

پاکستان کو ورلڈ کپ وارم اپ میں شکست، نیوزی لینڈ نے 346 رنز کا ہدف حاصل کرلیا


بھارتی شہر احمد آباد کے اسٹیڈیم میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان وارم اپ میچ کا ایک منظر۔ نیوزی لینڈ کے بلے بازمارک چیپ مین شا ٹ لگا رہے ہیں۔ 29 ستمبر 2023
بھارتی شہر احمد آباد کے اسٹیڈیم میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان وارم اپ میچ کا ایک منظر۔ نیوزی لینڈ کے بلے بازمارک چیپ مین شا ٹ لگا رہے ہیں۔ 29 ستمبر 2023

سابق بھارتی کرکٹر سنیل گواسکر نے بھارت کے شہر حیدرآباد دکن میں ہونے والے ورلڈ کپ 2023 کے وارم اپ میں استعمال ہونے والی وکٹ کو میچ سے قبل دیکھ کر 'روڈ' قرار دیا تھا، لیکن پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کو اندازہ نہیں تھا کہ اس بے جان وکٹ پر بالرز کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔

پانچ اکتوبر سے بھارت میں شروع ہونےو الے ایونٹ سے قبل وارم اپ میچوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے ہی میچ میں پاکستان کو گزشتہ دو ورلڈ کپ کی رنرزاپ ٹیم نیوزی لینڈ نے 5 وکٹ سے شکست دے دی۔
میچ کی خاص بات پاکستان کے بلے بازوں کا 345 رنز کا ہدف بنانا تھا لیکن بالرز کی مایوس کن کارکردگی اور فیلڈرز کی جانب سے متعدد کیچ گرانے کی وجہ سے کیویز نے یہ ہدف 6 اوورز پہلے ہی حاصل کرلیا۔
یہ پاکستان کا بھارت میں 2016 کے بعد پہلا میچ تھا اور ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی بھارت میں پہلی مرتبہ کھیل رہے تھے۔ حیدرآباد دکن کی پولیس نے متعدد مذہبی تہواروں کی وجہ سے میچ میں سیکیورٹی فراہم کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ جس کی وجہ سے وارم اپ میچ تماشائیوں کے بغیر کھیلا گیا۔
پاکستانی ٹیم اپنا دوسرا وارم اپ میچ 3 اکتوبر کو حیدرآباد دکن میں ہی آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گی۔ جب کہ ایونٹ میں نیدرلینڈز کی ٹیم کے خلاف میچ سے ورلڈ کپ کا باقاعدہ آغاز کرے گی۔
نیوزی لینڈ نے پاکستان کا پہاڑ جیسا ہدف 38 گیندیں قبل ہی حاصل کرلیا
حیدرآباد دکن میں کھیلے گئے میچ میں پاکستانی کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ امام الحق اور عبداللہ شفیق کے جلد آؤٹ ہوجانے کے بعد بابر اعظم اور محمد رضوان نے جارحانہ حکمت عملی اپناتے ہوئے تیسری وکٹ کی شراکت میں 114 رنز بنائے۔
بابر اعظم صرف 84 گیندوں پر 80 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ محمد رضوان نے صرف 94 گیندوں پر شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے 103 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی اور ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے۔
ان کے بعد نمبر پانچ پر بیٹنگ کے لیے آنے والے سعود شکیل نے 53 گیندوں پر 75 رنز بناکر پاکستان کے بڑے اسکور کی بنیاد رکھی۔ ان کی اننگز میں چار چوکے اور پانچ چھکے شامل تھے اور ان کے جارحانہ شاٹس پر کمنٹیٹر بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ، سلمان علی آغا بھی اننگز کے آخر میں 23 گیندوں پر 33 رنز بناکر نمایاں رہے۔
346 رنز کے تعاقب میں نیوزی لینڈ کا آغاز اچھا نہ تھا۔ حسن علی کی پہلی ہی گیند پر ڈیون کونوے آؤٹ ہوگئے لیکن ان کے ساتھ اننگز کا آغاز کرنے والے آل راؤنڈر رچن رویندرا کسی اور موڈ میں نظر آئے۔
پہلی بار اننگز کا آغاز کرنے کے لیے بھیجے جانے والے بلے باز نے صرف 72 گیندوں پر 16 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 97 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی۔
انجری سے کم بیک کرنے والے کیوی بلے باز کین ولیمسن کے ساتھ ڈیرل مچل نے رنز بنانے کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور بالتریب 57 اور 59 رنز کی اننگز کھیل کر ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے۔ جس کے بعد مارک چیپ مین نے شاندار کھیل پیش کرکے کیویز کو وارم اپ میچ کا فاتح بنایا۔
انہوں نے 41 گیندوں پر 65 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی۔ نیوزی لینڈ کی اننگز کے دوران تمام ہی بلے بازوں نے پاکستان کے پیسرز کے ساتھ ساتھ اسپنرز کو بھی پریشان رکھا۔
لیگ اسپنر اسامہ میر دو وکٹوں کے ساتھ سب سے نمایاں بالر رہے مگر ان کی گیند پر متعدد کیچز گرے جس کا نقصان پاکستانی ٹیم کو ہوا۔ 44ویں اوور کی چوتھی گیند پر جب کیویز نے ہدف حاصل کیا تو اس وقت بھی حارث رؤف کے چھ اوورز باقی تھے، جب کہ حسن علی کی 14 گیندیں رہتی تھیں۔
شاہین شاہ آفریدی اور شاداب خان نے نیوزی لینڈ کی اننگز میں بالنگ نہیں کی جس کی وجہ سے پاکستان کا اٹیک بجھا بجھا نظر آیا۔ شاہین آفریدی تو فیلڈنگ کرنے بھی گراؤنڈ پر نہیں آئے لیکن شاداب خان سے بالنگ نہ کرانے پر کمنٹیٹرز بھی حیران تھے اور مبصرین بھی۔
صحافی رضوان علی نے میچ کے فورا بعد ٹویٹ کرتے ہوئے سوال کیا کہ شاہین شاہ آفریدی اور شاداب خان سے بالنگ نہ کرانے کے پیچھے کیا منطق تھی؟
زبیر علی خان نے بھی محمد نواز اور حارث رؤف کے وکٹ نہ لینے اور شاداب خان کا اننگز میں بالنگ نہ کرنے پر تعجب کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اسامہ میر کے دس اوورز میں 68 رنز کے عوض دو وکٹوں کو بھی سراہا۔
باسط سبحانی نے ایکس پر اپنا تجزیہ پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ وارم اپ میچ میں پاکستانی ٹیم کو ایک اچھا موقع ملا تھا کمبی نیشن بنانے کا جسے انہوں نے ضائع کر دیا۔ ان کے خیال میں شاداب خان اور فخر زمان کو اس میچ کے ذریعے ردہم میں آنے کا موقع دیا جاسکتا تھا۔
انہوں نے سعود شکیل سے بالنگ نہ کروانے، اور محمد وسیم جونئیر پر مسلسل اعتماد کرنے پر بھی اعتراض کیا۔ ان کے خیال میں حارث رؤف کا وکٹ نہ لینا ، حسن علی کا دوسرے اسپیل میں رنز دینا اور اسپنرز کا فیل ہونا مینجمنٹ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اسپورٹس صحافی شاہد ہاشمی کے خیال میں وارم اپ میچ میں پاکستان کی کارکردگی اچھی تھی، لیکن 345 رنز بناکر بھی دس وکٹیں نہ لینا ان کی شکست کا سبب بنا۔
ایک اور صحافی محی شاہ سمجھتے ہیں کہ کیوی بلے بازوں کا پاکستانی بالرز کے خلاف بے خوف ہوکر کھیلنا سمجھ سے باہر تھا۔ پاکستان نے وہی حکمت عملی اپنائی جسے ایشیا کپ میں فالو کیا تھا۔ میگا ایونٹ کے لیے معمولی ٹیم بھیجنے سے پاکستان کو نقصان ہوگا۔
ساج صادق کے خیال میں پاکستان کے بیک اپ بالرز کی پٹائی تشویشناک ہے۔
پہلے وارم اپ میچ کے بعد بھارتی صحافی وکرانت گپتا کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی کارکردگی اہم میچوں میں بھی ایسی ہی رہی تو دوسری ٹیموں کا فائدہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھاکہ جس وقت دوسری ٹیمیں جارح مزاجی دکھاتی ہیں، پاکستان ٹیم دفاعی موڈ میں چلی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین بھی پاکستان کی وارم اپ میچ میں شکست سے خوش نہیں!
پاکستان کی نیوزی لینڈ کے ہاتھوں وارم اپ میچ میں شکست کے بعد سوشل میڈیا پر ٹیم کی سلیکشن پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک صارف نے میچ کا نتیجہ ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ نے دوستی الیون کو پانچ وکٹ سے شکست دے دی۔
تو کسی کے خیال میں پاکستان کی بالنگ کا پچھلے میچز میں نہ چلنا تشویش ناک ہے۔
اظہار نامی صارف کے خیال میں اگر اسکواڈ میں زمان خان کو سلیکٹ کیاجاتا تو بہتر ہوتا کیوں کہ وہ یارکر پھینکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔محمد وسیم اور حسن علی کےصرف بال چمکدار ہیں، انہیں سیلون بھیجنا چاہئے۔
جب کہ ایک صارف نے محمد نواز کے انتخاب پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ابھی تک نواز کی سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ سلو میڈیم پیس بالر ہے یا اسپنر؟
براڈکاسٹر عدیل اظہر نے بھی ٹیم کو کافی بورنگ کہا۔
جب کہ ایک اور صارف کے مطابق جس قسم کی پچ بالرز کو ملی، اس پر رنز ہی بننے تھے۔ اصل مسئلہ فیلڈنگ ہے اور اگر اسامہ میر کی بالنگ پر گرنے والے تینوں کیچ پکڑ لیے جاتے تو پاکستان میچ جیت سکتا تھا۔
ایسے میں مبصرین نے سعود شکیل کی خوب تعریف کی جنہوں نے اپنی جارحانہ اننگز سے سب کو متاثر کیا۔ عامر ملک کے مطابق سعود شکیل کے چرچے نے اپنی بیٹنگ سے ثابت کر دیا کہ فائنل الیون میں ان کا ہونا ضروری ہے۔
سابق ٹیسٹ فاسٹ بالر تنویر احمد نے بھی سعود شکیل کی اننگز کو ان کے ناقدین کے لیے ایک کرارا جواب قرار دیا۔
سابق بلے باز باسط علی نے تو سعود شکیل کا موازنہ نیوزی لینڈ کے مارک چیپ مین سے کر دیا جنہوں نے کیوی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔
اسپورٹس سنکس نامی اکاؤنٹ نے پاکستان کی شکست کا ذمہ دار فیلڈرز کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بابر اعظم نے 90 کے اسٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کی۔سعود شکیل کو موقع دیا ۔اگر متعدد کیچ گرنے کی وجہ سے ٹیم نہیں جیتی تو کپتان کا کیا قصور۔
امیر آصف حمزہ نامی صارف نے بھی کہا کہ اس شکست کے کئی مثبت پہلو ہیں جس میں اسامہ میر کی دو وکٹیں، حسن علی کی نئی گیند سے سوئنگ، بابر کی مستقل مزاجی اور محمد رضوان اور سعود شکیل کی شاندار اننگز شامل ہیں۔
آخر میں شہریار اعجاز نامی صارف نے شائقین کا دل بہلانے کے لیے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، 1992 میں بھی پاکستان ٹیم وارم اپ میچ ہاری تھی اور نیوزی لینڈ کے خلاف بھی وارم اپ میچ میں اسے شکست ہوئی۔
  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG