پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان امریکہ کے نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں حقانی کو پختون قبیلہ قرار دیا جس کے بعد ان کے اس بیان پر بحث جاری ہے۔
بدھ کو ’سی این این‘ کو انٹرویو کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ حقانی پختون قبیلہ ہے جس کے افراد افغانستان میں مقیم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ امریکیوں نے کبھی بھی نہیں سمجھا کہ حقانی نیٹ ورک ہے کیا؟
عمران خان کے مطابق حقانی نیٹ ورک کو نہ پہچاننا امریکہ ہی کی لاعلمی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا حقانی کو پختون قبیلہ کہنے کا بیان نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور دیگر ممالک میں مقیم پختونوں میں بھی سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنایا ہوا ہے۔
خیال رہے کہ جلال الدین حقانی حقانی نیٹ ورک کے سربراہ تھے۔
حامد میر نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ عمران خان کو ٹیلی وژن پر کہتے ہوئے سنا کہ حقانی افغانستان کا ایک قبیلہ ہے۔ دارالعلوم اکوڑہ خٹک سے تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبہ اپنے نام کے ساتھ حقانی لگاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جلال الدین حقانی بھی اپنے نام کے ساتھ حقانی لگاتے تھے۔ انہوں نے افغانستان سے سوویت یونین کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
دارالعلوم حقانیہ کی تاریخ
جمعیت علماء اسلام (س) کے مرکزی سربراہ اور سابق رکن قومی اسمبلی مولانا حامد الحق نے وائس آف امریکہ کے گفتگو کہا کہ 1947 میں برصغیر کے تقسیم کے بعد دارالعلوم دیوبند کی طرز پر خیبر پختونخوا کے اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین اور دارالعلوم دیوبند سے منسلک مولانا عبد الحق نے 23 ستمبر 1947 میں اپنے آبائی علاقے میں ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ اور اس مدرسے کا نام اپنے نام سے منسوب کیا۔
ان کے مطابق تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان کے تمام علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ دیوبند مدرسے سے منسلک تھے۔
مولانا حامد الحق کا کہنا تھا کہ دارالعلوم حقانیہ کو نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک میں بھی ایک منفرد مقام حاصل ہے۔
افغانستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں افراد 1970 کی دہائی کے بعد سے پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا کے شہروں اور قصبوں کے مدارس میں مذہبی تعلیم حاصل کی تھی۔ البتہ دسمبر 1979 کے آخر میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو دارالعلوم حقانیہ افغان مہاجرین کے حصولِ علم کا ایک اہم منزل قرار پایا۔
مولانا عبد الحق کے بعد ان کے بڑے بیٹے مولانا سمیع الحق دار العلوم حقانیہ کے مہتمم بن گئے اور مولانا سمیع الحق کے انتقال کے بعد اب مولانا یوسف شاہ کے بقول ان کے بھائی مولانا انوار الحق اس ادارے کا نظم و نسق سنبھال رہے ہیں۔ جب کہ مولانا سمیع الحق کے بڑے بیٹے مولانا حامد الحق نائب مہتمم ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جمعیت علماء اسلام (س) کے مرکزی ترجمان مولانا یوسف شاہ نے تصدیق کی کہ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی نے دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔
ان کے بقول جلال الدین حقانی کے خاندان کے زیادہ تر افراد نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اسی طرح جلال الدین حقانی کے ساتھ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں پیش پیش رہنے والے افراد میں سے زیادہ تر کسی نہ کسی طریح اس درس گاہ کے ساتھ منسلک رہے۔ ان افراد میں مولانا یونس خالص نمایاں تھے جب کہ تحریک طالبان افغانستان کے بانی ملا محمد عمر اخوند مختصر عرصے کے لیے اس ادارے میں زیرِ تعلیم رہے تھے۔
افغانستان میں سویت یونین کی آمد سے قبل دارالعلوم حقانیہ سے فارغ ہونے والے طلبہ اپنے نام کے ساتھ حقانی نہیں لکھتے تھے۔
مولانا حامد الحق کا کہنا تھا کہ جلال الدین دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل پہلے طالب علم تھے جنہوں نے اپنے نام کے ساتھ 1979 کے بعد حقانی لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں علما نے بھی اپنے ناموں کے آخر میں حقانی لگانا شروع کر دیا۔
اس حوالے سے سینئر صحافی مشتاق یوسف زئی کا کہنا ہے کہ 2001 میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد جلال الدین حقانی اور ان کے ساتھیوں نے امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا تھا جس کے نتیجے میں حقانی نیٹ ورک کا نام بھی منظرِ عام پر آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جلال الدین حقانی کے بعد ان کے بیٹے سراج الدین حقانی نیٹ ورک کے سربراہ بنے۔ سراج الدین حقانی طالبان کی موجودہ حکومت میں کابینہ میں وزیرِ داخلہ کے طور پر موجود ہیں۔ جب کہ ان کے چچا خلیل الرحمٰن حقانی اسی کابینہ میں وزیر برائے بحالیٴ مہاجرین ہیں۔
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے علاوہ کراچی کی جامعہ بنوریہ، جامعہ نعیمیہ سمیت کئی ایک دیگر مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ اپنے ناموں کے ساتھ بنوری یا نعیمی لکھتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں ضلع صوابی میں مذہبی رہنما مولانا محمد طاہر کے پیروکار اپنے ناموں کے ساتھ طاہری لکھتے ہیں۔ اسی مکتبہ فکر کے لوگوں کو مدارس اور مساجد میں پنج پیری کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
مولانا یوسف شاہ نے بتایا کہ اس وقت افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان کی کابینہ میں زیادہ تر کا تعلق بھی کسی نہ کسی طریقے سے دارالعلوم حقانیہ سے رہا ہے۔ ان وزرا میں مولوی عبد الباقی، ذبیح اللہ مجاہد، نجیب اللہ، عبد الحفیظ منصور اور نور محمد ثاقب نمایاں ہیں۔
مولانا یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ اس ادارے کو اب ایک بین الاقوامی درس گاہ یعنی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں پاکستان کے علاوہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے درجنوں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے واقعے سے قبل دارالعلوم حقانیہ میں وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے درجنوں طلبہ زیرِ تعلیم تھے ۔ البتہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی نافذ کردہ پابندیوں کے نتیجے میں غیر ملکی طلبہ واپس چلے گئے۔ اب صرف ویزہ رکھنے والے افغان باشندے اس ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یوسف شاہ کے مطابق اس وقت دارالعلوم حقانیہ میں زیرِ تعلیم طلبہ کی تعداد چار ہزار ھے ۔
حزبِ اختلاف میں شامل جمعیت علماء اسلام (ف) اور مختلف جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی 1970 کے دہائی میں دارالعلوم حقانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ یوسف شاہ کے بقول مولانا فضل الرحمٰن آٹھ سال تک اس ادارے میں زیرِ تعلیم رہے اور انہوں اس ادارے ہی سے سند حاصل کی۔
مولانا فضل الرحمٰن جس وقت دارالعلوم حقانیہ میں زیرِ تعلیم تھے اس وقت ان کے والد مولانا مفتی محمود مختصر وقت کے لیے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بھی رہے تھے۔