اقوامِ متحدہ کے فیلڈ سیکورٹی کوآرڈینیٹنگ افسر جوتام میسیونو جانتے ہیں کہ یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ گذشتہ ہفتے کے دوران، موگادیشو کی سڑکوں پر کئی بم پھٹے ہیں، اور تقریباً ایک درجن مسلح جھڑپیں ہوئی ہیں ۔ میئر کے اسسٹنٹ کی کار گھریلو ساخت کے ایک بم سے اڑ گئی جو کار کے اندر نصب کر دیا گیا تھا ۔ ان کا کام یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے عملے کو بکتر بند گاڑیوں میں جنہیں ’’کیسپرز‘‘ کہتے ہیں ، امدادی کارروائیوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ باغیوں کے حملوں کا پہلے سے اندازہ لگانا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا، ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن یہ کام کرنا ضروری ہے کیوں کہ ہمیں لوگوں کا پیٹ بھرنا ہے اور انہیں مدد دینی ہے ۔
میسیونو کہتے ہیں’’کسی بھی انسان کا خوفزدہ ہونا قدرتی بات ہے۔ لیکن ایک پیشہ ور فرد کی حیثیت سے آپ کو اپنے خوف پر قابو پانا ضروری ہے کیوں کہ عملے کے تمام لوگوں کی زندگیاں آپ کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔‘‘
موگا دیشو میں اقوام متحدہ کی پناہ گزیں ایجنسی کی سربراہ گونڈولائن مینساح اور میسیونو کی موجودگی بڑی غنیمت ہے۔ افریقی یونین مشن بھی ، جسے مختصراً ’ایمیسوم‘ AMISOM کہتے ہیں بڑی مفید خدمات انجام دے رہا ہے ۔
مینساح کہتی ہیںٖ’’ جب کبھی ہم اقوامِ متحدہ کے کمپاؤنڈ سے باہر جاتے ہیں، ہم بکتر بند گاڑیاں استعمال کرتے ہیں ۔ ہماری حفاظت کے لیے AMISOM کے انتہائی مشاق اور تربیت یافتہ سپاہی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ہر ممکنہ خطرے کا مداوا تو نہیں کر سکتے، لیکن آپ کو یہ اعتماد ضرور ہوتا ہے کہ اگر کچھ ہوا، تو وہ مدد کے لیے موجود ہوں گے۔‘‘
AMISOM یوگنڈا، برونڈی اور کینیا کے سپاہیوں پر مشتمل ہے ۔ AMISOM کا مقصد ، دوسری چیزوں کے علاوہ ، یہ ہے کہ دارالحکومت میں حالات مستحکم کیے جائیں تا کہ یہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والوں کے لیے محفوظ ہو جائے ۔
کیپٹین رونالڈ کاکوروگو کو اس خیال سے اطمینان ہوتا ہے کہ ان کے ساتھی جسمانی اور نفسیاتی طور سے کسی بھی اچانک حادثے سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب فوجی موگادیشو کے ایک حصے کو محفوظ بنا رہے تھے، اور وہ باغیوں کے بم سے زخمی ہو گئے تھے تو کیا ہوا تھا’’ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس کئی میڈیکل ٹیمیں ہیں جو بڑی تیزی سے کام کرتی ہیں۔ ہلاک و زخمی ہونے والوں کو نکالنا، ابتدائی طبی امداد فراہم کرنا، ہسپتال پہنچانا، یہ سب کام بڑی پھرتی سے کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا یہ سارا کام پندرہ منٹوں میں ہو گیا، میری بہت اچھی دیکھ بھال ہوئی، اور میں چند ہفتوں میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔‘‘
صومالی ریہیبلیٹیشن اینڈ ڈویلپمنٹ ایجنسی یا SORDA کے کمپاؤنڈ میں سینکڑوں لوگوں کو جن میں بیشتر عورتیں اور بچے ہیں، کھانے کا راشن اور علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ نرس خادرا سلیمان ایک نوجوان ماں کو اس کے بیمار بچے کے لیے دوا دے رہی ہیں۔ موگادیشو کی سڑکوں پر ایک بار نرس سلیمان بال بال بچی تھیں۔ وہ ایک گولی سی زخمی ہو گئی تھیں جب چند بد معاش ایک شخص کو لوٹ رہے تھے ۔
الشباب نے سلیمان کے شوہر کو تین سال قبل ہلاک کر دیا تھا۔ اب وہ اپنے آٹھ بچوں کی ماں اور باپ دونوں کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ خطرات کے باوجود، وہ اپنے بچوں کی خاطر اپنے کام پر روزانہ جاتی رہتی ہیں۔ انہیں سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو بچوں کا کیا ہوگا۔ ایک مترجم کی وساطت سے، انہوں نے بتایا کہ انہیں اپنے کام سے توانائی اور سکون ملا ہے ۔ وہ کہتی ہیں’’میں اللہ سے دعا کرتی ہوں اور محسوس کرتی ہوں کہ چونکہ میں دوسروں کی مدد کر رہی ہیں، اس لیے میں ہر آفت سے محفوظ رہوں گی۔ میں نے جب سے یہاں کام کرنا شروع کیا ہے، مجھے کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔‘‘
موگادیشو میں اور پورے ملک میں ، ملکی اور غیر ملکی امدادی کارکنوں کی حفاظت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا کہ ان کے دو کارکنوں کی ہلاکت کے بعد، وہ دارالحکومت کے ایک حصے میں اپنی کارروائیاں ختم کر دیں گے۔
گذشتہ نومبر میں، الشباب نے ان علاقوں میں جو اس کے کنٹرول میں ہیں، 16 بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں پر پابندی لگا دی ۔ اس انتہا پسند گروپ نے ان ایجنسیوں پر الزام لگایا کہ وہ مغربی ملکوں کے لیے جاسوسی کر رہی ہیں۔
بارش کے موسم کی وجہ سے خشک سالی میں کچھ کمی آئی ہے لیکن ملک میں حالات اب بھی بہت خراب ہیں ۔ اقوامِ متحدہ نے دسمبر میں جو اعداد و شمار جاری کیے، ان کے مطابق، صومالیہ میں 250,000 لو گوں کو فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، 450,000 بچے غذائیت میں شدید کمی کا شکار ہیں، اور پورے ملک میں 37 لاکھ افراد کو صحت کی بنیادی سہولتوں کی ضرورت ہے ۔