ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے جسے (ایم ایس ایف) بھی کہا جاتا ہے ایک نئی کتاب شائَع کی ہے جس کا عنوان ہے (ہیومینیٹرین نیگوسیاشین ریویلڈ) حالیہ برسوں میں طبی امداد اور انسانی بھلائی کی خدمات فراہم کرنے والے کارکنوں کو اپنی جانیں جوکھوں میں ڈالنی پڑی ہیں۔
بہت سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا ایسے محفوظ علاقے جن میں ضرورت مندوں تک امداد پہنچائی جا سکے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
مائیکل نیومین پیرس میں ایم ایس ایف کے ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر اور اس نئی کتاب کے مصنفین میں شامل ہیں۔ ’’2004ء میں افغانستان میں ہمارے پانچ کا رکن ہلاک ہوئے۔ صومالیہ میں تین کارکن ہلاک ہوئے اور نائیجراور سوڈان سے ہمارے کارکنوں کو نکال دیا گیا۔
خیال یہی تھا کہ یہ تمام واقعات اس لیے ہوئے کیوں کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائی اور سیاسی اور فوجی مداخلت کے درمیان جو واضح فرق ہے وہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ ہماری تنظیم کے لیے کام کرنا روز بروز زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
نیومین کہتے ہیں کہ اگر جنگ کے علاقوں میں علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جانی ہیں، تو مذاکرات ناگزیر ہیں۔ ’’اس کتاب میں ہم نے یہ دلیل دی ہے کہ انسانی ہمدردی کا کام کسی فرضی ماحول میں نہیں ہو سکتا۔ امدادی کام کرنے والوں کو خود مذاکرات کے ذریعے اپنے لیے جگہ بنانی ہوگی۔ اس کے لیے انہیں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتے کرنے ہوں گے حکام اور سول سوسائٹی کے گروپوں بین الاقوامی تنظیموں، حکومتوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں اپنا کام کرنے کے لیے جگہ بنانی ہو گی۔ ہم نے اس کتاب میں انہیں پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے‘‘۔
مذاکرات میں اصل اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کوئی مشترکہ موقف تلاش کیا جائے ۔ نیومین اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’’آپ کو اپنے بارے میں یہ خیال نہیں ہونا چاہیئے کہ آپ کے پاس تمام اخلاقی اقدار کی اجارہ داری ہے۔ ہمارے اپنے مفادات ہیں اور حکام کے اپنے مفادات ہیں۔ لہٰذا ان مختلف پارٹیوں اور گروپوں کے درمیان ہمیں مشترکہ مفادات تلاش کرنے ہیں‘‘۔
نیومین کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذاکرات میں جتنے بھی لوگ شریک ہیں وہ سب ایم ایس ایف کی موجودگی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ’’2007 میں موگادیشو میں سرجری کا ایک پراجیکٹ قائم کرتے وقت، ہمیں ایک فرضی میز کے گرد جنگی سرداروں ان کے دشمنوں ان کے کٹر دشمنوں، اسلام پسند باغیوں، قبائلی لیڈروں، سب کو جمع کرنا پڑا، تا کہ وہ سب اس میں حصے دار بن سکیں‘‘۔
مثلاً، مسلح گروپوں کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ ان کے جنگجوؤں یا گھرانوں کو ایم ایس ایف کلینک سے علاج کی سہولتیں مل سکتی ہیں۔ قبیلے کے لیڈروں کے خیال میں اس کلینک سے ان کے علاقے کی شہرت اور ساکھ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
صومالیہ کے بارے میں اس کتاب کا ایک باب نیومین نے تحریر کیا۔ اس کا عنوان ہے (ایوری تھنگ از اوپن ٹو نیوگوسی ایشن( یعنی ہر چیز کے لیے مذاکرات ضروری ہیں۔’’اگر آپ صومالیہ میں کوئی بھی کام کرنا چاہتے ہیں جہاں کوئی حکومت نہیں ہے اور علاج معالجے کی سہولتیں نا پید ہیں، تو آپکو اپنے کام کے ہر پہلو کے لیے سودے بازی کرنا ہوگی۔ آپ کو گاڑیاں کرایے پر لینے ، اسٹاف کو بھرتی کرنے ، عبوری حکومت کو یا باغیوں کو ٹیکس ادا کرنے کے لیے سودے بازی کرنا ہوگی ۔ آپ کو بات چیت کے ذریعے یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ آپ کس قسم کا کام کریں گے‘‘۔
قدیم یونانی طبیب بقراط نے جنہیں مغربی طب کا بانی سمجھا جاتا ہے، لکھا ہے کہ بیماری کے بارے میں دو خاص چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے، فائدہ پہنچانا یا کوئی نقصان نہ پہنچانا۔ لیبیا کے شہر مصراتہ میں ایم ایس ایم کو اسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔
’’ہماری ٹیموں کو ایک ہولناک حقیقت کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں پتہ چلا کہ وہ بنیادی طور پر ایسے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں جنہیں اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ مریضوں کو پولیس کے ہاتھوں اذیت رسانی کے بعد علاج کے لیے لایا جاتا اور جب ایم ایس ایف انہیں اس قابل کر دیتی کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں،تو چند روز بعد ان لوگوں کو پھر حراستی مرکزوں میں واپس بھیج دیا جاتا جہاں اذیت رسانی کا سلسلہ پھر شروع ہو جاتا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ سمجھنے لگتے ہیں کہ آپ کا کام بے معنی ہے۔ اور اس کیس میں، فیصلہ کیا گیا کہ اس پراجیکٹ کو ختم کر دیا جائے۔
نیومین کہتے ہیں کہ آپ کی کوشش ہوتی ہے کہ آپ جس چیز کو صحیح سمجھتے ہیں اس کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں لیکن آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ اپنا مقصد پوری طرح حاصل نہیں کر سکیں گے۔
ایم ایس ایف کی کتاب میں کہا گیا ہے کہ بعض اوقات اپنی اقدار پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہنا اور بحالتِ مجبوری حالات سے سمجھوتہ کر لینا ہی ایک عظیم کارنامہ ہوتا ہے۔