نیروبی، کینیا —
گزشتہ بارہ مہینوں میں، صومالیہ نے ایک نیا آئین منظور کیا ہے، نئی پارلیمینٹ ، صدر اور وزیر اعظم منتخب کیے ہیں، اور اس طرح 20 برس سے زیادہ عرصے میں پہلی مستحکم حکومت کی راہ ہموار کی ہے۔ گذشتہ ایک سال میں صومالیہ کی سیاست میں کیا کچھ ہوا ہے اور اسے ابھی کن چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
اگست میں، صومالیہ کی نئی پارلیمینٹ کے ارکان نے موگا دیشو ایئر پورٹ کے باہر، ایک پارکنگ لاٹ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
275 نشستوں کے اس ایوان کا چناؤ ملک میں آٹھ سالہ عبوری سیاسی دور کے خاتمے اور ایک نئی نمائندہ حکومت کے آغاز کی جانب انتہائی اہم کارنامہ ہے۔
اس سیاسی پیش رفت سے بین الاقوامی برادری میں نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔
ایران نے اس سال صومالیہ میں اپنا سفارت خانہ کھولا ہے، برطانیہ نے اپنے سفیر کا تقرر کر دیا ہے، اور اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنا مزید عملہ موگا دیشو منتقل کر دے گی۔
ٹرکش ایئر لائن نے مئی میں صومالیہ کے دارالحکومت کے لیے با قاعدہ پروازیں شروع کر دیں، اور ترکی اس ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے میں پیش پیش ہے۔
موگادیشو میں یونٹی پارٹی کے سیاستداں عبد الرحمٰن عادل کہتے ہیں کہ صومالیہ کے لیے یہ ایک تاریخی سال تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ حکومت نے اس سال کے دوران مشکل ترین کام انجام دیے ۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔‘‘
نئی پارلیمینٹ نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے صدر حسن شیخ محمود کو صدر منتخب کر لیا۔ وہ ایک ماہرِ تعلیم اور سول سوسائٹی کے لیڈر ہیں جن کے سبکدوش ہونے والی اور بدنامِ زمانہ کرپٹ عبوری حکومت سے کوئی تعلقات نہیں۔
نئے صدر نے ایک نیا وزیرِ اعظم مقرر کر دیا ہے جنھوں نے ایک کابینہ منتخب کی ہے جس میں وزیرِ خارجہ کا عہدہ، تاریخ میں پہلی بار، ایک خاتون کو دیا گیا ہے۔
تاہم، موگادیشو میں سب لوگوں نے اس حکومت کا خیر مقدم نہیں کیا ہے۔ صومالیہ کے سیاسی تجزیہ کار ابراہیم آبڈو کہتے ہیں کہ حکومت کے سرکردہ لوگ سیاست میں نئے ہیں، اور وہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ’’ہم کہہ سکتےہیں کہ ان میں سے 80 فیصد لوگ جمہوریت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیوں کہ یہ ایسی چیز نہیں ہے جس پر ملک میں عمل کیا گیا ہو۔ ملک کا آئین بھی جمہوریت کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے ۔ آبڈو کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن چیزوں کے لیے سیاسی تجربے کی ضرورت ہے، ان پر عمل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‘‘
نئی حکومت کے لیے سکیورٹی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ نئے صدر نے ستمبر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، اور اس کے چند روز بعد ہی، تین خود کش بمباروں نے موگادیشو میں اس ہوٹل کے باہر حملہ کیا جہاں صدر کینیا کے ایک وفد سے مل رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت ان کی پہلی، دوسری اور تیسری ترجیحات سکیورٹی کی ہی ہوں گی۔
افریقی یونین کی امن فوج ، ایمی سوم نے کینیا اور ایتھیوپیا کے ساتھ کام کرتے ہوئے، مو گادیشو اور جنوب وسطی صومالیہ سے الشباب کے عسکریت پسندوں کو ان کے اڈوں سے نکال باہر کیا ہے۔
لیکن صومالی تجزیہ کار عابدی وہاب شیخ عابدی صمد کہتے ہیں کہ صومالیہ کی اپنی قومی فوج اب بھی بہت کمزور ہے، اور مختلف قبائل کے درمیان داخلی رقابتوں کی وجہ سے اس میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر خدا نہ کرے،ایمی سوم نے اچانک صومالیہ کو چھوڑ دیا، تو پھر ملک واپس قبیلوں، اور جنگی سرداروں کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا۔ موجودہ فوجی عملہ، جس کا تعلق ہاویے قبیلے سے ہے، اور وہ لوگ جو موگادیشو کے ارد گرد کے علاقوں میں ہیں، کیا وہ سب حکومت کے وفادار ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ایک کےذہن میں ہے۔‘‘
نئی حکومت کے سامنے ایک اور چیلنج یہ ہے کہ جو علاقہ الشباب سے بازیاب کیا گیا ہے، اس کا انتظام کیسے چلایا جائے۔ گذشتہ سال جنوبی صومالیہ میں بندر گاہی شہر کسمایو اقتصادی اعتبار سے اہم ترین شہر ہے جسے آزاد کرایا گیا ہے۔
اس علاقے میں بہت سے قبیلے شہر کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہےہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اس علاقے میں پنٹلینڈ اور شمال میں صومالی لینڈ جیسے خود مختار جیسی نئی ریاست قائم کر دی جائے۔ وہ حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں جو دارالحکومت کے باہر اپنی موجودگی اور اپنا اختیار قائم کرنا چاہتی ہے۔
کسمایو اور جوبالینڈ پر کنٹرول حاصل کرنے کی سیاسی کشمکش سے اس کشیدگی کا اظہار ہوتا ہے جو موگادیشو اور صومالیہ کے دوسرے علاقوں کے درمیان موجود ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے گذشتہ سال ہونے والی سیاسی پیش رفت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اگست میں، صومالیہ کی نئی پارلیمینٹ کے ارکان نے موگا دیشو ایئر پورٹ کے باہر، ایک پارکنگ لاٹ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
275 نشستوں کے اس ایوان کا چناؤ ملک میں آٹھ سالہ عبوری سیاسی دور کے خاتمے اور ایک نئی نمائندہ حکومت کے آغاز کی جانب انتہائی اہم کارنامہ ہے۔
اس سیاسی پیش رفت سے بین الاقوامی برادری میں نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔
ایران نے اس سال صومالیہ میں اپنا سفارت خانہ کھولا ہے، برطانیہ نے اپنے سفیر کا تقرر کر دیا ہے، اور اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنا مزید عملہ موگا دیشو منتقل کر دے گی۔
ٹرکش ایئر لائن نے مئی میں صومالیہ کے دارالحکومت کے لیے با قاعدہ پروازیں شروع کر دیں، اور ترکی اس ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے میں پیش پیش ہے۔
موگادیشو میں یونٹی پارٹی کے سیاستداں عبد الرحمٰن عادل کہتے ہیں کہ صومالیہ کے لیے یہ ایک تاریخی سال تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ حکومت نے اس سال کے دوران مشکل ترین کام انجام دیے ۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔‘‘
نئی پارلیمینٹ نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے صدر حسن شیخ محمود کو صدر منتخب کر لیا۔ وہ ایک ماہرِ تعلیم اور سول سوسائٹی کے لیڈر ہیں جن کے سبکدوش ہونے والی اور بدنامِ زمانہ کرپٹ عبوری حکومت سے کوئی تعلقات نہیں۔
نئے صدر نے ایک نیا وزیرِ اعظم مقرر کر دیا ہے جنھوں نے ایک کابینہ منتخب کی ہے جس میں وزیرِ خارجہ کا عہدہ، تاریخ میں پہلی بار، ایک خاتون کو دیا گیا ہے۔
تاہم، موگادیشو میں سب لوگوں نے اس حکومت کا خیر مقدم نہیں کیا ہے۔ صومالیہ کے سیاسی تجزیہ کار ابراہیم آبڈو کہتے ہیں کہ حکومت کے سرکردہ لوگ سیاست میں نئے ہیں، اور وہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ’’ہم کہہ سکتےہیں کہ ان میں سے 80 فیصد لوگ جمہوریت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیوں کہ یہ ایسی چیز نہیں ہے جس پر ملک میں عمل کیا گیا ہو۔ ملک کا آئین بھی جمہوریت کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے ۔ آبڈو کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن چیزوں کے لیے سیاسی تجربے کی ضرورت ہے، ان پر عمل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‘‘
نئی حکومت کے لیے سکیورٹی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ نئے صدر نے ستمبر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، اور اس کے چند روز بعد ہی، تین خود کش بمباروں نے موگادیشو میں اس ہوٹل کے باہر حملہ کیا جہاں صدر کینیا کے ایک وفد سے مل رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت ان کی پہلی، دوسری اور تیسری ترجیحات سکیورٹی کی ہی ہوں گی۔
افریقی یونین کی امن فوج ، ایمی سوم نے کینیا اور ایتھیوپیا کے ساتھ کام کرتے ہوئے، مو گادیشو اور جنوب وسطی صومالیہ سے الشباب کے عسکریت پسندوں کو ان کے اڈوں سے نکال باہر کیا ہے۔
لیکن صومالی تجزیہ کار عابدی وہاب شیخ عابدی صمد کہتے ہیں کہ صومالیہ کی اپنی قومی فوج اب بھی بہت کمزور ہے، اور مختلف قبائل کے درمیان داخلی رقابتوں کی وجہ سے اس میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر خدا نہ کرے،ایمی سوم نے اچانک صومالیہ کو چھوڑ دیا، تو پھر ملک واپس قبیلوں، اور جنگی سرداروں کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا۔ موجودہ فوجی عملہ، جس کا تعلق ہاویے قبیلے سے ہے، اور وہ لوگ جو موگادیشو کے ارد گرد کے علاقوں میں ہیں، کیا وہ سب حکومت کے وفادار ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ایک کےذہن میں ہے۔‘‘
نئی حکومت کے سامنے ایک اور چیلنج یہ ہے کہ جو علاقہ الشباب سے بازیاب کیا گیا ہے، اس کا انتظام کیسے چلایا جائے۔ گذشتہ سال جنوبی صومالیہ میں بندر گاہی شہر کسمایو اقتصادی اعتبار سے اہم ترین شہر ہے جسے آزاد کرایا گیا ہے۔
اس علاقے میں بہت سے قبیلے شہر کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہےہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اس علاقے میں پنٹلینڈ اور شمال میں صومالی لینڈ جیسے خود مختار جیسی نئی ریاست قائم کر دی جائے۔ وہ حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں جو دارالحکومت کے باہر اپنی موجودگی اور اپنا اختیار قائم کرنا چاہتی ہے۔
کسمایو اور جوبالینڈ پر کنٹرول حاصل کرنے کی سیاسی کشمکش سے اس کشیدگی کا اظہار ہوتا ہے جو موگادیشو اور صومالیہ کے دوسرے علاقوں کے درمیان موجود ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے گذشتہ سال ہونے والی سیاسی پیش رفت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔