رسائی کے لنکس

کیا بھارت میں حجاب تنازع ملک گیر تحریک میں بدل رہا ہے؟


بھارت کی ریاست کرناٹک سے شروع ہونے والا حجاب تنازع ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گیا ہے، بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تنازع بھارت میں ایک ملک گیر تحریک میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

ادھر حجاب تنازع پر ہونے والی تنقید کے پیشِ نظر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست کرناٹک میں اپنے مقامی رہنماؤں اور ریاستی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مسلم آبادی سے کہیں کے بی جے پی مسلم خواتین کی مخالف نہیں ہے۔ لہذٰا حجاب پر پابندی کا فیصلہ تعلیمی اداروں پر چھوڑ دیا جائے۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق منگلور سے بی جے پی کے رکن اسمبلی بھرت شیٹی نے کہا کہ اعلیٰ قیادت نے ہدایت کی ہے کہ پارٹی کارکن تحمل سے کام لیں اور اس معاملے کو جلد از جلد حل کریں تاکہ پارٹی کے انتخابی امکانات متاثر نہ ہوں۔

دریں اثنا کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر عائد پابندی کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ میں جمعرات کو سماعت ہوئی جس میں طالبات کی طرف سے پیش ہونے والے وکلا نے دلائل دیے۔

ایڈووکیٹ ونود کلکرنی نے حجاب پر پابندی ہٹانے کا عبوری حکم دینے کی استدعا کی۔

کرناٹک کے سابق ایڈووکیٹ جنرل اور سینئر وکیل روی ورما کمار نے کہا کہ صرف حجاب پر پابندی عائد کی گئی ہے اور مسلم طالبات سے کہا گیا ہے کہ وہ عقیدے اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔

رپورٹس کے مطابق روی کمار نے حجاب پر پابندی کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ بہت سے شہری اپنے لباس سے اپنے مذہب کا اظہار کرتے ہیں۔ معاشرے میں مذہبی تنوع کی بہت سی علامتیں ہیں۔ حکومت نے صرف حجاب کا معاملہ اٹھایا اور ایک طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا۔

ان کے بقول پٹیشنرز کو صرف ان کے مذہب کی وجہ سے کلاس رومز سے باہر کیا گیا۔ بندی لگانے، چوڑی پہننے، صلیب لٹکانے اور پگڑی پہننے والوں کو کچھ نہیں کہا گیا۔ صرف حجاب پوش طالبات کو ہی کیوں نکالا گیا۔ یہ اقدام آئین کی دفعہ 15 کی خلاف ورزی ہے۔


اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ پگڑی پہننے والا فوج میں جا سکتا ہے تو پھر حجاب پوش لڑکیاں کلاس رومز میں کیوں نہیں کی جا سکتیں؟

ایک اور سینئر وکیل یوسف حاتم مچھالا نے بھی حجاب پر پابندی کی مخالفت کی اور اسے خلافِ آئین قرار دیا۔ دیگر وکلا نے بھی عدالت میں سماعت کے دوران حجاب پر پابندی کو آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔

حکومتی وکلا نے کیا کہا؟

اس سے قبل کرناٹک حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ جنرل نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو درست قرار دیا اور کہا کہ بادی النظر میں پٹیشنرز کو عبوری ریلیف دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے کہا کہ ہر شخص عدالتی فیصلے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں عدالت کی حساسیت کا خیرمقدم کیا لیکن یہ بھی کہا کہ ہر تعلیمی ادارہ خودمختار ہے اور ہر طالبِ علم کو یونیفارم میں آنا چاہیے۔

انہوں نے دلیل دی کہ اسلام میں حجاب پہننا بنیادی مذہبی عمل نہیں ہے۔ دیگر عدالتیں اس کی وضاحت کر چکی ہیں۔ جہاں ایک طرف متعدد ملکوں نے عوامی مقامات پر حجاب کو ممنوع قرار دیا ہے وہیں بھارت کے متعدد تعلیمی اداروں نے کیمپس میں حجاب پر پابندی لگا رکھی ہے۔

کیا یہ تنازع ملک گیر تحریک میں بدل رہا ہے؟

کیا یہ تنازع اب ایک ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے؟ اس پر مبصرین اور تجزیہ کاروں کی ملی جلی آراہیں۔

جہاں کچھ لوگ یہ اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر یہ معاملہ فوری طور پر حل نہیں ہوا تو ممکن ہے کہ یہ ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر لے۔

ان مبصرین کی رائے ہےجس طرح شہریت کے ترمیمی قانون، سی اے اے کے خلاف ملک بھر میں خواتین کا احتجاج شروع ہو گیا تھا اسی طرح مسلم خواتین اس معاملے پر بھی سڑکوں پر نہ آ جائیں۔

لیکن کچھ مبصرین اس خیال سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے بقول حالانکہ اسے مقامی سطح پر حل کر لیا جانا چاہیے تھا تاہم ابھی ایسا نہیں لگتا کہ یہ معاملہ ملک گیر تحریک بن جائے گا۔

مصنف اور تجزیہ کار ڈاکٹر اشوک کمار پانڈے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چونکہ حجاب پر پابندی کے خلاف ہونے والے مظاہرے بڑے پیمانے پر نہیں ہو رہے ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ معاملہ کسی تحریک میں تبدیل ہوا تو ملک کے مفاد میں نہیں ہو گا۔

بھارت میں حجاب تنازع: کون کیا کہہ رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:46 0:00

ان کے بقول یہ ایک سیاسی ایشو ہے اور جان بوجھ کر اسے بڑھایا گیا ہے۔ بعض طاقتیں ملک کی دو بڑی قوموں کے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور اگر یہ معاملہ زیادہ بڑھا تو دونوں فرقوں میں حائل خلیج بڑھتی چلی جائے گی۔

انتخابی ایشو بننے کا خطرہ

کیا یہ معاملہ انتخابی ایشو بھی بن سکتا ہے؟ اس سلسلے میں اشوک کمار کا کہنا ہے کہ اب عوامی مسائل پر انتخابات نہیں لڑے جاتے بلکہ جذباتی اور مذہبی ایشوز کو اٹھایا جاتا ہے۔ اس لیے ایسا اندیشہ ہے کہ اگر یہ معاملہ حل نہیں ہوا تو اگلے سال مارچ میں ہونے والے کرناٹک اسمبلی کے انتخابات میں اسے ایک ایشو بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

ان کے مطابق اگر الیکشن میں اسے ایشو بنایا گیا تو دونوں فرقوں کے درمیان کی دوری مزید بڑھے گی جو نہ تو ریاست کرناٹک کے حق میں ہوگا اور نہ ہی ملک کے۔


انہوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں تک اگلے پارلیمانی انتخابات میں اس معاملے کو انتخابی ایشو بنانے کی بات ہے تو ابھی پارلیمانی الیکشن دور ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ یہ معاملہ اس وقت تک زندہ رہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ جاری سماعت کے بارے میں انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ معاملہ ایسا نہیں تھا کہ اس کو اتنی طوالت دی جاتی۔ اس پر تو فوراً فیصلہ آ جانا چاہیے تھا۔ ان کے بقول ایسا لگتا ہے کہ کچھ طاقتیں چاہتی ہیں کہ یہ ایشو زندہ رہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ کسی ایک فریق کے حق میں آیا تو اس کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

ان کے مطابق جہاں ایک طرف ہمارا آئین تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت دیتا ہے وہیں دوسری طرف بھارت میں ان باتوں کو کبھی کوئی بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ ان کے بقول اب دونوں فرقوں میں شدت پسندی آ گئی ہے جو ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

سینئر وکیل فرخ خاں ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لازمی مذہبی عمل آئین کی دفعہ 25 کے تحت آتا ہے لہٰذا ریاستی حکومت اس حق کو کسی بھی طرح چھین نہیں سکتی۔

ان کے مطابق حجاب پہننے کو ایک لازمی مذہبی عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دستور کی دفعہ 25 ایک میں واضح طور پر لباس کی آزادی کا ذکر کیا گیا ہے اور حکومت اس حق کے تحفظ کی پابند ہے۔

انہوں نے کہا کہ دستور کی دفعہ 19 ایک میں اظہارِ خیال کو بنیادی آزادی مانا گیا ہے اور اپنی پسند کا لباس پہننے کا حق اس کے ذیل میں آتا ہے۔

انہوں نے متعدد عدالتی فیصلوں کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پہننا عوامی نظم و ضبط کو کیسے متاثر کرتا ہے؟

ان کے بقول بہت سی مذہبی رسومات میں سر ڈھانپنا روایت کا حصہ ہے لیکن ہیڈ اسکارف ایک خاص مذہب کی جانب اشارہ کرتا ہے اور اس پر پابندی لگانا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہے۔

سینئر کانگریس رہنما راہول گاندھی نے ایک تصویر ٹوئٹ کی ہے جس میں یونیفارم میں ملبوس چند طالبات ایک حجاب پوش طالبہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے ایک گروپ کی شکل میں اسکول کی طرف جا رہی ہیں۔ راہول گاندھی نے لکھا ہے کہ ہم متحد ہیں۔


بی جے پی رہنماوں کا مؤقف

بھارتی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے ایک بیان میں سوال اُٹھایا کہ لوگ بتائیں کہ انہیں تعلیم چاہیے یا حجاب؟

انہوں نے خبر رساں ادارے 'اے این آئی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے قرآن پڑھا ہے وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ اس میں حجاب کے مقابلے میں تعلیم کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ لیکن آج حجاب سامنے آ گیا ہے اور تعلیم پیچھے چلی گئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان کا کہنا ہے کہہ اسلام میں پانچ ارکان لازمی ہیں، ان میں حجاب نہیں ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج مسلم خواتین ہر میدان میں آگے جا رہی ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ حجاب پہننا پسند کا معاملہ نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کسی ادارے میں شامل ہو رہے ہیں تو اس کے قواعد و ضوابط اور اس کے ڈریس کوڈ کی پابندی کریں گے یا نہیں۔

حجاب تنازع پر مظاہرے جاری

ادھر حجاب پر پابندی کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

سوشل میڈیا میں اتوار کو ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین پر پولیس ڈنڈے برسا رہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق دہلی سے متصل غازی آباد ضلع کے کھوڑا علاقے میں دس پندرہ خواتین حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ پولیس نے ان کو روکنے کی کوشش کی جس پر پولیس سے ان کا ٹکراؤ ہوا۔

رپورٹس کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے بڈگام میں بھی مسلم خواتین نے حجاب کی حمایت میں مظاہرے کیے۔

اسی طرح سری نگر میں کشمیر یونیورسٹی کے سامنے مظاہرہ ہوا جس کے دوران خاتون مظاہرین نے کالج کے اند رجانے والی حجاب پوش خواتین کو پھول اور چاکلیٹس پیش کیں۔


ادھر جمعرات کو کرناٹک کے شیوموگا کے ایک کالج میں برقع اور حجاب پوش طالبات کو داخل ہونے سے روک دیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق یہ 40 طالبات تھیں۔ کالج انتظامیہ نے ان سے کہا کہ وہ اپنا مذہبی لباس اتار کر آئیں۔ لیکن جب انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو انتظامیہ نے گیٹ بند کر دیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG