جنوبی کوریا کے سابق صدر کم ڈا جُنگ کی بیوہ دونوں ممالک کے درمیان مستقل طور پر کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے شمالی کوریا کا غیر معمولی دورہ کر رہی ہیں۔
سابق خاتون اول لی ہی ہو 18 رکنی وفد کے ساتھ بدھ کو سیول کے ائیر پورٹ سے چار روزہ دورے پر روانہ ہوئیں۔ ان کے دورے کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں۔
لی کے ساتھ سفر کرنے والے جنوبی کوریا کے سابق وزیر ثقافت کم سنگ جے نے کہا کہ سابق خاتون اول نے امید ظاہر کی کہ ان کا دورہ ’’دونوں ممالک کے درمیان 70 سال کی جدائی سے پیدا ہونے والے درد اور زخموں کو مندمل کرنے‘‘ میں مدد دے گا۔
انہوں نے دورے پر روانہ ہونے سے قبل کہا کہ ’’وہ چاہتی ہیں کہ دونوں کوریائی ممالک پر امن ماحول میں مفاہمت، تعاون اور محبت سے رہیں اور ان کے عوام ایک دوسرے کا سفر کریں۔‘‘
لی ہی کے دورے کو انسانی ہمدردی کی کوشش کہا گیا مگر یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ ان کی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے ملاقات ہو سکتی ہے، جنہوں نے سابق خاتون اول کو ملک کے دورے کی دعوت دی تھی۔
ان دونوں کی 2011 میں ملاقات ہوئی تھی جب لی کم کے والد کم جونگ دوم کی وفات پر افسوس کے لیے پیانگ یانگ گئی تھیں۔
لی کے شوہر کم ڈا جُنگ 1998 سے 2003 تک ملک کے صدر رہے۔ ان کی نام نہاد ’’سن شائن پالیسی‘‘ کے باعث شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات میں بہتری پیدا ہوئی تھی۔
مفاہمت کا یہ دور 2007 میں جنوبی کوریا میں ایک قدامت پسند حکومت کے انتخاب کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد شمالی کوریا کی جانب سے متعدد جوہری اور میزائل تجربات کے بعد تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔
دونوں ممالک 1950 کی دہائی میں امن معاہدے کے بجائے جنگ بندی کے تحت جنگ ختم کرنے کے بعد ابھی تک تکنیکی طور پر حالت جنگ میں ہیں۔