اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نگران ادارے کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان کے کئی حصوں میں نسلی صفایا کیا جا رہا ہے اور ملک میں نسل کشی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی سربراہ یاسمین سوکا، حال ہی میں جنوبی سوڈان کے دس روزہ دورے سے واپس آئی ہیں۔ ان کی جانب سے جاری ہونے والے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو بھوک، اجتماعي جنسی حملوں اور بستیوں کو جلانے کے واقعات کے ذریعے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
یاسمین کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں ہم جہاں کہیں بھی گئے، ہم نے دیہاتیوں کو یہ کہتے سنا کہ ہم ان سے اپنی زمینیں واپس لینے کے لیے خون بہانے کو تیار ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کا یہ کہناتھا کہ اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہاں ایک ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں جیسا روانڈا میں تھے ۔ یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امدادی ادارے کئی بار جنوبی سوڈان کی صورت حال کے متعلق خبردار کر چکے ہیں، جہاں نسلی بنیادوں پر مسلح جھڑپیں ہو رہی ہیں اور ہزاروں افراد مارے اور 25 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔
ہزاروں افراد نے ان کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے جن کی حفاظت اقوام متحدہ کے امن کار کررہے ہیں۔
یہ نسلی لڑائی صدر سلوا کیر اور ان کے حریف ریاک مشار کے درمیان دسمبر 2013 میں شروع تھی۔ پچھلے سال ادیس ابابا میں طے پانے والا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد اس سال جولائی سے دونوں فریقوں کے درمیان دارالحکومت جوبا میں لڑائیاں دوبارہ پھوٹ پڑیں تھیں۔