عالمی سطح کی تین چوٹی کی ریٹنگ ایجنسیوں میں سے ایک سٹینڈرڈ اینڈ پُوارز نے پاکستان کی طویل مدتی کریڈٹ ریٹنگ کا درجہ بی سے کم کر کے منفی بی کر دیا ہے۔ پیر کے روز ایجنسی نے اپنے اقدام کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ریٹنگ کم کرنے کا مقصد، ملک کی شرح نمو میں کمی اور ملک پر اندرونی اور بیرونی مالی دباؤ ہیں۔
آئی ایم ایف کے سابق افسر، ڈا کٹر زبیر اقبال کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ریٹنگ کا تعلق پرائیویٹ سرمایہ کاری اور ملک کی طویل مدتی سرمایہ کاری میں حاصل ہونے والے منافع سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹر زبیر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا اس کے معنی یہ ہوئے کہ کیا اس ملک میں سرمایہ لگانے سے حاصل ہونے والے منافع میں اضافہ ہو گا یا کمی؟
ڈاکٹر زبیر کا کہنا تھا کہ چونکہ اب پاکستان کی ریٹنگ بی سے منفی بی ہو گئی ہے، اس لئے پاکستان میں سرمایہ کار صرف اسی صورت اپنا سرمایہ لگائیں گے اگر انہیں زیادہ منافع ملنے کی توقع ہو گی۔ اگر منافع کم ہے یا مقابلاً کم ہے تو پھر عمومی سرمایہ کاری رک جائے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں پرائیویٹ سرمایہ کاری میں کمی سکتی ہے۔
کریڈٹ ریٹںگ گھٹںے کے دوسرے نقصان پر بات کرتے ہوئے ماہر معاشیات ڈاکٹر زبیر کا کہنا تھا کہ اس سے داخلی یعنی قومی سرمایہ کاری میں بھی کمی آنے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑا خطرناک سا معاملہ ہوتا ہے۔ مقامی سرمایہ کار اس قسم کی ریٹنگ کو دیکھ کر اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا ملک کے اندر سرمایہ کاری ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اور سرمایہ لگانے کے بعد انہیں کس طرح کے فوائد حاصل ہوں گے۔ کریڈٹ رینٹنگ گرنے کی صورت حال میں اس کے معاشی اثرات منفی ہوتے ہیں۔ اس وقت چونکہ پاکستان کو سرمایہ کاری کی زیادہ ضرورت ہے، لیکن ریٹنگ گرنے کے باعث سرمائے کے بہاؤ میں کمی آنے کا خدشہ ہے تو اس کا ایک اور منفی اثر یہ پڑ سکتا ہے کہ معاشی نمو کے اہداف پورے کرنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض لے گا۔ تو کیا ریٹنگ میں کمی سے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں دشواری پیش آئی گی؟ ڈاکٹر زبیر کہتے ہیں کہ جہاں تک آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کا تعلق ہے تو وہ قرض مانگنے والے ملک کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں۔ وہ اپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے اس ملک کے ساتھ مل کر معاشی پالیسیاں بناتے ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھیں کہ ان پالیسیوں کی مدد سے مذکورہ ملک اپنی مالی مشکلات سے نکلنے کے قابل ہو جائے گا، تو پھر یقیناً وہ اسے قرض دے دیں گے۔ یہ نجی شعبے والا معاملہ تو ہے نہیں، کیونکہ پرائیویٹ سیکٹر تو صرف منافع دیکھتا ہے، اور ری پیمنٹ کے پیسے نہیں دیکھتا۔
تو کیا پاکستان میں اصلاحات کے نام پر کئے جانے والے اقتصادی اقدامات، آئی ایم ایف کی ایما پر کئے جا رہے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر زبیر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے تو آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک سنجیدگی سے اس موضوع پر بات بھی نہیں کی۔ تاہم پاکستان نے چند ایسے پالیسی اقدامات کیے ہیں جن کا تقاضا و یقیناً آئی ایم ایف کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو فیصلے کئے گئے ہیں وہ غلط نہیں ہیں۔
دوسری جانب، ایف اے ٹی ایف، نے بھی پاکستان کی درجہ بندی کرنے کے بعد اسے گرے ایریا میں ڈال دیا ہے۔ تو کیا اس درجہ بندی سے آئی ایم ایف سے قرض لینے میں دقت پیش آ سکتی ہے؟
ماہر معاشیات ڈاکٹر یعقوب مہر کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اگرچہ ایف اے ٹی ایف کا باقاعدہ رکن تو نہیں ہے لیکن اس کا نمائندہ ایک مبصر کے طور پر اس میں بیٹھتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں جو بھی فیصلے کیے جاتے ہیں، آئی ایم ایف ہمیشہ ان کا احترام کرتا ہے۔ اور ان کے مطابق ہی اپنے فیصلے کرتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان گرے ایریا میں ہے اس لئے اس کا نقصان پاکستان کو یہ ہے کہ اس کے لیے رسک فیکٹر یعنی خطرے کا عنصر بڑھ جاتا ہے، جس کے باعث قرض دینے والی ایجنسیاں، بشمول آئی ایم ایف،اپنی شرائط سخت کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مذاکرات ہوتے ہیں اور شرح سود پر بھی بات چیت ہوتی ہے۔ تو اس میں اگر رسک پریمئیم کو جمع کر دیا جائے، تو پھر سود کی شرح زیادہ ہو جاتی ہے اور اس سے قرضے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔
ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
اینڈرایڈ فون کے لیے:
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en
آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے:
https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675