اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا۔ یورپی ممالک نے فیصلے کی بنیاد غزہ میں آٹھ ماہ سے جاری جنگ بند کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اسپین اور آئر لینڈ یورپ کے بڑے اور سیاسی طور پر زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک ہیں جنہوں نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا ہے۔ |
اسرائیل کی شدید مخالفت کے باوجود تین یورپی ممالک اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا ہے۔ اسرائیل نے تینوں ملکوں کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے رکن 193 ممالک میں سے اب 140 سے زائد ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ان ممالک میں روس، چین اور بھارت جیسے بڑے ممالک بھی شامل ہیں۔
اسپین کے وزیرِ خارجہ کے مطابق 193 میں سے اب 146 ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔
اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے اپنے فیصلے کی بنیاد غزہ میں آٹھ ماہ سے جاری جنگ بند کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
اسپین اور آئر لینڈ یورپ کے بڑے اور سیاسی طور پر زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک ہیں جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ قبل ازیں یورپی یونین کے 27 ممالک میں سے سوئیڈن، پولینڈ، قبرص، ہنگری، چیک ری پبلک، رومانیہ، بلغاریہ اور سلواکیہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔
برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے رکن ممالک مالٹا اور سلوینیا بھی حالیہ مہنیوں میں اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتے ہیں۔
فرانس نے کہا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے جب کہ جرمنی، اسرائیل کا ایک مضبوط اتحادی ملک ہے۔ اسی طرح امریکہ نے بھی یک طرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ مسترد کیا ہے۔ امریکہ کے مطابق مسئلے کا 'دو ریاستی حل' صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔
قبل ازیں ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں اسپین کے وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔
ان کے بقول یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو کسی کے خلاف نہیں ہے، کم از کم اسرائیل کے تو بالکل خلاف نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ حماس کو یکسر مسترد کرنے کا بھی عکاس ہے۔
واضح رہے کہ وزیرِ اعظم سانچیز نے گزشتہ ہفتے پارلیمان کے سامنے بھی اس فیصلے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یہ اعلان کرنے سے قبل کئی ماہ تک یورپی ممالک اور مشرقِ وسطی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور غزہ میں قیامِ امن کے بارے میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔
اسپین کے وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ اسپین اس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا جس میں غزہ اور مغربی کنارہ شامل ہو گا جب کہ اس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے واضح کیا کہ وہ فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے ماتحت اس متحدہ ریاست کو تسلیم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسپین کسی بھی صورت میں 1967 کے بعد کی فلسطینی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اگر فریقین اس پر راضی ہو گئے تو وہ انہیں تسلیم کر سکتا ہے۔
اسرائیل کا ردِعمل
دوسری جانب اسرائیلی وزیرِ خارجہ اسرائیل کاٹز نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں اسپین کے وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز کو یہودیوں کے قتلِ عام پر اُکسانے کی معاونت کرنے والا قرار دیا ہے۔
اسرائیل اور یورپی یونین میں تناؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے کیوں کہ ایک جانب تین یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں اسپین نے زور دیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں کیوں کہ اسرائیلی فوج کے رفح میں ہلاکت خیز حملے جاری ہیں۔
اسپین کے حوالے سے اسرائیل کے وزیرِ خارجہ اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ اس کا یروشلم میں موجود قونصل خانے کو فلسطینیوں کی مدد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسی دوران اسپین سے تعلق رکھنے والے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے چیف جوزف بوریل نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی حمایت ظاہر کی ہے۔ اسی عدالت کے پراسیکیوٹر محمد کریم نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سمیت دیگر حکام اور غزہ کی عسکری تنظیم حماس کی اعلیٰ قیادت کی گرفتاری کی درخواست کی ہے۔