رسائی کے لنکس

پاکستان، بھارت سمیت دنیا کے 9 جوہری ملکوں نے پچھلے سال اپنے پروگراموں پر 91.4 ارب ڈالر خرچ کیے


شمالی کوریا کی ویڈیو سے بنائی گئی ایک تصویر میں ایک نامعلوم مقام سے ایک بیلسٹک میزائل داغا جا رہا ہے ،فوٹو اے پی 20 فروری 2023
شمالی کوریا کی ویڈیو سے بنائی گئی ایک تصویر میں ایک نامعلوم مقام سے ایک بیلسٹک میزائل داغا جا رہا ہے ،فوٹو اے پی 20 فروری 2023


دنیا کےنو جوہری ملکوں نے 91.4 ارب ڈالرکےیہ اخراجات اپنے پروگراموں کو جدید بنانے کے لیے اور بعض صورتوں میں اپنے ہتھیاروں کو بڑھانے کے لیے کی ہیں،" اس رقم کے خطیر ہونے کا اندازہ اس طرح لگائیں کہ ہر ایک سیکنڈ میں تقریباً 3000 ڈالر خرچ کیے گئے۔

یہ اطلاع دی ہے گئی ہے پیر کو , "ICAN" یا International Campaign to Abolish Nuclear Weapons کی ایک رپورٹ میں۔

رپورٹ کی شریک مصنفہ ایلیسیا سینڈرز نے رپورٹ کی اشاعت سے پہلےگزشتہ ہفتے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا تھاکہ "یہ رقم ضائع کی جا رہی ہے کیونکہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ملک اس بات پر متفق ہیں کہ جوہری جنگ کبھی نہیں جیتی جا سکتی اور نہ ہی لڑی جانی چاہیے۔"

مثال کے طور پر، انہوں نے کہا، 91.4 ارب ڈالر "موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سالانہ ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ گھروں کے لیے ہوا سے بجلی پیدا کرنےکی ادائیگی کر سکتے ہیں یا موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور آلودگی کو کم کرنے کے لیے عالمی فنڈنگ میں موجود کمی کا 27 فیصد پورا کر سکتے ہیں۔"

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں نے 2022 کے مقابلے میں 2023 میں جوہری ہتھیاروں پر 10.7 ارب ڈالر زیادہ خرچ کیے، اس میں 80 فیصد اضافہ امریکہ کی جانب سے ہوا ہے۔

"ICAN" کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 51.5 ارب ڈالر خرچ کیےجو، "دیگر تمام جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک سے زیادہ ہیں۔"

اس کا کہنا ہے کہ امریکہ کے بعد سب سے زیادہ رقم خرچ کرنے والا ملک چین تھا جس نے 11.8 ارب ڈالر خرچ کیے اور 8.3 ارب ڈالر کی تیسری سب سے بڑی رقم خرچ کرنے والا ملک روس ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے "اخراجات میں 17 فیصد اضافے کے ساتھ مسلسل دوسرے سال نمایاں اضافہ ہوا"، جو اب 8.1 بلین ڈالر ہو گئے، جو کہ روس سے کچھ کم ہیں ۔

پانچ دیگر جوہری طاقتوں، فرانس، بھارت، اسرائیل، پاکستان اور شمالی کوریا کی مشترکہ کل رقم گزشتہ سال 11.6 بلین ڈالر تھی۔

رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں شامل کمپنیوں کو 2023 میں 7.9 ارب ڈالر سے کم مالیت کے نئے معاہدے ملے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جمع کیے گئے ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے پر مجموعی طور پر 387 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔

ایلیسیا سینڈرز نے کہا، "گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ غیر انسانی اور تباہ کن ہتھیاروں کو تیار کرنے کے لیے وقف رقم میں ایک قابل ذکر اضافہ ہوا ہے، جو اب تیز ہو رہا ہے۔"

ان کا کہنا ہے"یہ تمام رقم عالمی سلامتی کو بہتر نہیں بنا رہی ہے۔ درحقیقت، یہ لوگوں کو جہاں بھی وہ رہتے ہوں، دھمکا رہی ہے۔"

ہتھیاروں پر کنٹرول کے ماہرین ان خدشات سے متفق ہیں اور وہ ایک ایسے وقت میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ کے خطرات سے خبردار کر رہےہیں جب نیوکلیر طاقتیں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی روح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہتھیاروں کو تیار کر رہی ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد جوہری ہتھیاروں اور ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

میگزین "فارن افیئرز " کے مئی کے شمارے کی ایک رپورٹ میں چین کے تیزی سے پھیلتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں واشنگٹن کے خدشات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ پینٹاگون کے اندازوں کے مطابق، "چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت میں، بیجنگ 2030 تک 1000 جوہری بم جمع کرنے کی راہ پر ہے، جو 2019 میں تقریباً 200 تھے۔"

امریکہ کی سٹریٹیجک پوزیشن پر کانگریس کے کمیشن کی 2023 کی ایک رپورٹ میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ چین کی جوہری توسیع کی وجہ سے فوری طور پر امریکی پالیسی سازوں کو "امریکہ کی نیوکلیر فورس کے سائز اور ساخت کا دوبارہ جائزہ لینا چاہئے۔"

کمیشن نے روس کے بتدریج بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے پر بھی تشویش کا اظہار کیاہے "جس میں اس کی نیوکلیر فورسز کی بے مثال ترقی، اس کے جوہری نظام کا تنوع اور توسیع، 2014 میں یوکرین پر در اندازی اور اس کے بعد فروری 2022 میں مکمل پیمانے پر حملہ شامل ہے۔"

روس کی طرف سے حادثاتی طور پر یا جان بوجھ کر کسی ٹیکٹیکل جوہری حملے کے بارے میں بین الاقوامی تشویش، گزشتہ ہفتے کےاختتام پر اٹلی میں G7 سربراہی اجلاس میں، اور سوئٹزرلینڈ میں یوکرین کے لیے امن سربراہی اجلاس میں سامنے آئی تھی۔

اپنے حتمی اعلامیے میں، G7 رہنماؤں نے روس کی "بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی" کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس تناظر میں، روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں،اور یوکرین کے خلاف جارحیت کی جنگ کے تناظر میں جوہری ہتھیاروں کا کوئی بھی استعمال ناقابل قبول ہوگا۔

اسی جذبے کا اظہار یوکرینی امن کانفرنس میں شرکت کرنے والے 100 ممالک میں سے زیادہ تر کے دستخط شدہ حتمی اعلامیے میں سامنے آیا تھا۔ جس میں بھارت، انڈونیشیا، میکسیکو، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ شامل نہیں تھے۔

یوکرین پر روس کے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے، "ICAN" کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر میلیسا پارکے نے خبردار کیا کہ اس جنگ نے روس اور مغرب کے درمیان جوہری تناؤ کو سرد جنگ کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے اور اب روس کی متعدد کھلی جوہری دھمکیوں کے نتیجے میں کسی جوہری تنازعے کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔

ایک طرف جہاں ICAN کی رپورٹ میں پچھلے پانچ سال کے دوران جوہری اخراجات میں نمایاں اضافہ دکھایا گیا ہے، ادارے کی پروگرام کوآرڈینیٹر اور رپورٹ کی شریک مصنف سوسی سنائیڈر کا مشاہدہ ہے کہ "ان بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف عالمی مزاحمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔"

ان کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی ممانعت کے معاہدے پر تقریباً 100 ممالک کے دستخط ہیں۔ اور تقریباً 5 ٹریلین ڈالر کے اثاثوں کی نمائندگی کرنے والے 111 سرمایہ کاروں نے معاہدے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیاہے۔

جنیوا سے وائس آف امریکہ کی لزا شلائین کی رپورٹ۔

فورم

XS
SM
MD
LG