سری لنکا میں جاری سنگین معاشی بحران کے باعث ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شدت آنے کے بعد وزیرِ اعظم مہندا راجاپکسے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے مستعفی ہونے سے چند گھنٹوں قبل ہی حکومت کے حامی اور مخالف مظاہرین میں تصادم کے واقعات سامنے آئے تھے جن کی وجہ سے دارالحکومت کولمبو سمیت کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔
سری لنکا میں جاری سنگین معاشی بحران کے باعث گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے جس میں صدر گوتابایا راجاپکسے اور ان کے بڑے بھائی وزیرِ اعظم مہندا راجاپکسے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے نے سوشل میڈیا پر مستعفی ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ حالیہ بحران میں کئی حلقے تمام جماعتوں کی قومی حکومت کے قیام کو بہترین حل قرار دے رہے ہیں۔ وہ ایک قومی حکومت کے قیام کے لیے اپنے عہدے سے استعفی دےرہے ہیں۔
رائٹرز مطابق پیر کو حکومت کے حامی اور اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں میں تصادم کے بعد کئی مقامات پر کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔ پولیس نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا۔
دارالحکومت کولمبو کے قومی اسپتال کے حکام کے مطابق کم از کم نو زخمی افراد کو اسپتال لایا گیاہے۔
کرونا وبا کے باعث معاشی سرگرمیاں متاثر ہونے، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ٹیکس کٹوتیوں کی وجہ سے سری لنکا کے پاس ایندھن اور خوراک سمیت دیگر درآمدای اشیا کی ادائیگی کے لیےزرمبادلہ کی شدید قلت ہے۔
سری لنکا کے وزیرِ خزانہ علی صبری کے مطابق ملک کے پاس صرف پانچ کروڑ ڈالر کا زرِ مبادلہ باقی رہ گیا ہے۔
سری لنکا کی حکومت نے ہنگامی طور پر معاونت کے لیے عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کررکھا ہے اور اس سلسلے میں پیر کو ورچوئل اجلاس بھی ہونے والا ہے۔
ایندھن اور خوراک کی قلت کے باعث سری لنکا میں حکومت کے خلاف احتجاجی لہر کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت نے پانچ ہفتے کے دورانیے میں دو بار ہنگامی حالات نافذ کیے ہیں۔
راجا پکسے خاندان کا اقتدار
مہندا راجا پکسے 2020 کا الیکشن جیتنے کے بعد وزیرِ اعظم بنے تھے جب کہ ان کے بھائی گوتابایا راجا پکسے 2019 میں ملک کے صدر بن چکے تھے۔
اس سے قبل مہندا راجا پکسے 2005 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے اور 2015 تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔ اس دوران ان کے بھائی اور دیگر قریبی عزیز مختلف اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ان کا خاندان کئی دہائیوں سے سری لنکا میں برسرِ اقتدار ہے۔
راجاپکسے خاندان سےمتعلق مبینہ کرپشن کے الزامات اور اسکینڈل سامنے آنے کے بعد 2015 میں مہندا راجاپکسے کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ان کی کابینہ کے سابق وزیر میتھر پالا سری سینا صدر منتخب ہوئے۔ میتھر پالا سری سینا نے منتخب ہونے کے بعد ملک کے آئین میں دو سے زیادہ مرتبہ صدر بننے پر پابندی شامل کر دی۔
سن 2019 میں سری لنکا میں ایسٹر سنڈے کے موقع پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کے بعد ملک میں قوم پرستی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں راجا پکسے خاندان ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہوا۔
دو مرتبہ سے زائد صدر منتخب ہونے کی پابندی کی وجہ سے اس بار گوتابایا راجاپکسے نے صدارتی الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت حاصل کرکے کام یاب ہوئے۔
ان کی جماعت ’پودوجانا پرامونا‘ پارٹی نے حزب اختلاف کا صفایا کردیا اور اگلے ہی برس گوتابایا کے بھائی مہندا راجا پکسے پارلیمنٹ کے انتخابات کے نتیجے میں وزیرِ اعظم بن گئے۔
معاشی پالیسیوں میں ناکامی
سال 2019 میں سری لنکا میں صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر گوتابایا راجا پکسے نے بڑے پیمانے پر ٹیکس کٹوتیوں کا اعلان کیا تھا۔ ان اقدامات کے تحت ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو تقریباً نصف کر دیا گیا تھا۔
’رائٹرز‘ کے مطابق ٹیکس میں اتنی بڑی کمی کا یہ فیصلہ بہت اچانک تھا اور مرکزی بینک کے بعض عہدے داروں کو بھی اس سے بے خبر رکھا گیا تھا۔
حکومت کے مطابق ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے یہ ٹیکس کٹوتی کی گئی تھی۔ 2009 میں تامل علیحدگی پسندوں سے طویل خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد موجودہ صدر کے بھائی اور موجودہ وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے نے بھی ٹیکسوں میں کٹوتی کی تھی۔
موجودہ حکومت کے ٹیکس کٹوتی سے متعلق فیصلوں کے ناقدین کا کہنا تھا کہ بیرونی ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے باوجود ٹیکس میں کمی کرنے سے ملکی آمدن متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ 2019 میں حکومت نے قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا وہ بھی اس فیصلے کی وجہ سے قابلِ عمل نہیں رہا۔
ٹیکس میں کمی کے اس فیصلے کے کچھ ہی عرصے بعد کرونا کی عالمی وبا پھیل گئی۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں سفری پابندیاں عائد ہونے لگیں اور سیاحت پر انحصار کرنے والے سری لنکا کی معیشت اس سے بری طرح متاثر ہوئی۔
ملک میں زرمبادلہ کی شدید قلت کے باعث درآمدی ادائیگیاں نہ ہونے سے خوراک اور ایندھن کی قلت پیدا ہوئی اور اس مسئلے پرحکومت کے خلاف رواں برس مارچ سے شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوا ۔
عوامی احتجاج کے باعث رفتہ رفتہ راجا پکسے خاندان کی گرفت حکومت پر کمزور پڑ رہی ہے۔عوامی دباؤ کی وجہ سے گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم کے بھائی باسل راجا پکسے کو وزارتِ خزانہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا جب کہ پیر کو خود وزیرِ اعظم نے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ مظاہرین صدر گوتابایا راجا پکسے کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں تاہم ماضی میں وہ ان مطالبات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔