سری لنکا میں معاشی بحران کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث خوراک سے لے کر ایندھن تک تمام اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہے اور ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔
قلت کے باعث ملک میں پیٹرول کے حصول کے لیے طویل قطاروں میں انتظار کرنے والے کم از کم دو شہری ہلاک ہوچکے ہیں اور حکومت نے پیٹرول پمپس پر بڑھتے ہوئے ہجوم کے پیش نظر نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے فوج بھی تعینات کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق سری لنکا میں زرِ مبادلہ کے ذخائر 2.31 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جب کہ رواں برس اسے بیرونی قرضوں کی مد میں چار ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
ملک کے پاس ڈالرز کی کمی کی وجہ سے سری لنکا میں دودھ سمیت بنیادی غذائی اشیا کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث عالمی مارکیٹ سے تیل کی خریداری میں کمی کی وجہ سے ملک کو ایندھن کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
ڈالرز کی کمی کی وجہ سے سری لنکا عراق اور ناروے میں اپنا سفارت خانہ اور آسٹریلیا میں قونصل خانہ بند کرچکا ہے۔قبل ازیں گزشتہ برس دسمبر میں بھی سری لنکا ڈالر بحران کی وجہ سے نائیجیریا، جرمنی اور قبرص میں اپنے سفارتی مشن بند کرچکا ہے۔
سری لنکا کی معیشت کا سیاحت پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ کرونا وائرس کے باعث سیاحتی سرگرمیاں متاثر ہونے کے باعث گزشتہ دو برس کے دوران سری لنکا کی معیشت کو درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔لیکن معاشی ماہرین کے نزدیک بیرونی قرضوں اور ٹیکس سے متعلق حکومت کے اقدامات سری لنکا کو درپیش تاریخ کے سنگین ترین بحران کے اسباب میں شامل ہیں۔
بیرونی قرضے
سری لنکا 2007 سے مسلسل غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔ مختلف ادوار میں لیا گیا یہ قرض 11 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ اس قرض میں سے سب زیادہ یعنی36.4 فی صد حصہ حکومت کے بین الاقوامی بانڈ سے حاصل کردہ قرضوں پر مشتمل ہے۔
سری لنکا کے غیر ملکی قرضوں میں 14 فی صد سے زائد ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیا گیا ہےجو ساڑھے چار ارب سے زائد ہے۔ اس قرض میں جاپان اور چین دونوں کے الگ الگ ساڑھے تین ارب سے زائد بھی واجب الادا ہیں۔اس کے علاوہ بھارت اور عالمی بینک، اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضے بھی شامل ہیں۔
چین کے قرضے
پچھلے عشرے میں چین نے سری لنکا کو شاہراہوں، بندرگاہوں، ایک ایئرپورٹ کی تعمیر اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے لیے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ دیا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر قرضے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے منصوبوں کے تحت دیے گئے ہیں۔
لیکن نقادوں کا کہنا ہے یہ فنڈز ایسے منصوبوں کے لیے دیے گئے جن کی لاگت بہت زیادہ ہے لیکن ان سے آمدن کے امکانات بہت کم تھے۔ اس لیے ان منصوبوں کی وجہ سے سری لنکا کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا لیکن ان کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ آمدن کے ذرائع پیدا نہیں ہوئے۔ چین ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
رواں برس جنوری میں سری لنکا کے صدر گوتا بایا راجا پکشے نے چین سے قرضوں کی ادائیگی میں نرمی کی اپیل بھی کی تھی۔
معاشی پالیسیاں
بعض مبصرین کے مطابق سری لنکا کو درپیش معاشی مسائل کی بنیادی وجوہ میں حکومت کی اقتصادی پالیسیاں بھی شامل ہیں جن کے باعث کرونا وبا سے قبل ہی ملکی معیشت زوال کا شکار تھی۔
رواں ماہ امریکی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز آف سری لنکا کے ڈائریکٹر دشانی ویراکون کا کہنا تھا کہ 2007 کے بعد سے ہر حکومت قرضون کی ادائیگی کے لیے کسی سوچ بچار کے بغیر بانڈز جاری کرتی رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے کے لیے برآمدات سے آمدن بڑھانے کے بجائے قرضوں پر انحصار کیا گیا۔
ان کے مطابق ایک جانب حکومت غیر ملکی قرضوں اور درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے ڈالر استعمال کرتی رہی تو دوسری جانب مرکزی بینک نے ملکی کرنسی کی قدر کو برقرار رکھنے کے لیے زرمبادلہ کا استعمال کیا۔
ویراکون کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں غذا اور دیگر اشیائے ضروریہ کو ملک کے باہر سے منگوانے کے لیے زرِ مبادلہ ہی نہیں بچا اور افراطِ زر میں بھی اضافہ ہوا۔
ٹیکس اقدامات
سال 2019 میں سری لنکا میں صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر گوتابایا راجا پکشے نے بڑے پیمانے پر ٹیکس کٹوتیوں کا اعلان کیا۔ ان اقدامات کے تحت ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو تقریباً نصف کردیا گیا۔
’رائٹرز‘ کے مطابق ٹیکس میں اتنی بڑی کمی کا یہ فیصلہ بہت اچانک تھا اور مرکزی بینک کے بعض عہدے داروں کو بھی اس سے بے خبر رکھا گیا تھا۔
حکومت کے مطابق ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے یہ ٹیکس کٹوتی کی گئی تھی۔ 2009 میں تمل علیحدگی پسندوں سے طویل خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد موجودہ صدر کے بھائی مہندا راجا پکشے نے بھی ٹیکسوں میں کٹوتی کی تھی۔
موجودہ حکومت کے ٹیکس کٹوتی سے متعلق فیصلوں کے ناقدین کا کہنا تھا کہ بیرونی ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے باوجود ٹیکس میں کمی کرنے سے ملکی آمدن متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ 2019 میں حکومت نے قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا وہ بھی اس فیصلے کی وجہ سے قابلِ عمل نہیں رہا۔
ٹیکس میں کمی کے اس فیصلے کے کچھ ہی عرصے بعد کرونا کی عالمی وبا پھیل گئی۔ وبا کے باعث دنیا بھر میں سفری پابندیاں عائد ہونے لگیں اور سیاحت پر انحصار کرنے والے سری لنکا کی معیشت اس سے بری طرح متاثر ہوئی۔
گزشتہ ماہ سامنےآنے والے سری لنکا کے مرکزی بینک کے بیان کے مطابق وبا کی شدت میں کمی کے بعد ملک میں سیاحت کی صنعت بحال ہونا شروع ہوئی ہے۔
لیکن دوسری جانب گزشتہ دو برسوں کے دوران سری لنکا کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 70 فی صد سے زائد کمی آئی۔ اس وقت ملک پاس 2.36 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں جب کہ 2022 میں سری لنکا نے چار ارب سے زائد قرضے کی رقم ادا کرنی ہے۔
غیر ملکی قرضوں اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے مطلوب زرمبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ تیل کی کمی کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی بھی بند ہو چکی ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے سری لنکا میں ایندھن کا بحران مزید سنگین ہوا۔
آئی ایم ایف سے رابطہ
غیرملکی قرضوں اور کرونا وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کے بعد معاشی ماہرین کا خیال تھا کہ سری لنکا کو اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنا پڑے گا۔ لیکن حکومت مسلسل مزاحمت کرتی رہی۔
قبل ازیں 2020 میں صدر گوتابایا کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا اس کے بارے میں ماہرین کا خیال تھا کہ وہ ملک کے معاشی حقائق سے ہم آہنگ نہیں تھا۔رواں برس کے اختتام پر سرکاری اور نجی اداروں کی ادائیگیوں کے لیے حکومت کو ڈھائی ارب ڈالر درکار تھے۔ اس کے علاوہ 2022 میں مرکزی بینک کو ساڑھے چار ارب کی ادائیگیاں کرنا تھیں۔
معاشی صورتِ حال پر اپوزیشن کی جانب سے احتجاج اور حالات کی بڑھتی ہوئی سنگینی کے بعد گوتابایا راجا پکشے کی حکومت نے دو ہفتے قبل آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومتی اعلان کے مطابق کابینہ نے وزیرِ خزانہ کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے تجاویز تیار کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور وہ آئندہ ماہ عالمی مالیاتی ادارے سے گفتگو کا آغاز کریں گے۔
ماہرین کے مطابق سری لنکا اگر آئی ایم ایف سے اقتصادی معاونت حاصل کرنے میں کامیاب ہوبھی جاتا ہے تو اس کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے تجویز کردہ شرائط اور اصلاحات پر عمل درآمد اس کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
بھارت اور چین
معاشی بحران سے نکلنے کے لیے سری لنکا نے بھارت اور چین سے بھی مدد مانگی تھی۔
سری لنکا نےرواں ماہ بھارت سے ایک ارب ڈالر قرض حاصل کرلیا ہے۔ اس رقم سے دواؤں، خوراک اور ایندھن کی برآمدات کی ادائیگیاں کی جائیں گی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے چینی عہدے داروں کے حوالے سے خبر دی تھی کہ چین سری لنکا کو ڈیڑھ ارب روپے کی قرض کی سہولت دینے پر غور کر رہا ہے۔البتہ بیلٹ اور روڈ منصوبے کا حصہ ہونے کے باجود سری لنکا کو موجودہ سنگین بحران میں چین سے کوئی مدد حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
[اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔]