راجہ صرف سری لنکا کا سب سے دراز قامت ہاتھی ہی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے نام کی طرح اس ملک کے سب ہاتھیوں کا راجہ بھی ہے۔ اسے ملک بھر میں جو عزت و احترام ملتا ہے اور جس شان و شکوہ سے وہ جلوس میں شامل ہوتا ہے، وہ بادشاہوں کو بھی کم کم ہی نصیب ہوتا ہے۔
سری لنکا کی حکومت کو راجہ کے تحفظ اور سیکیورٹی کی اتنی فکر ہے کہ اس نے ایک فوجی دستہ راجہ کی حفاظت پر تعینات کر رکھا ہے۔
راجہ کا پورا نام نادونگاموا راجہ ہے۔ اس کا قد ساڑھے دس فٹ ہے، یعنی سری لنکا کے تمام ہاتھیوں میں سب سے زیادہ۔ اس کی عمر 65 سال ہے، مگر بزرگ یا ’سینئر سیٹزن ‘ ہونے کے باوجود وہ نوجوان ہاتھیوں کی طرح چاق و چوبند ہے اور اب بھی تھکے بغیر درجنوں کلومیٹر چلتا ہے۔
راجہ کسی سرکاری اسطبل کا ہاتھی نہیں ہے بلکہ وہ ایک عام شخص کی ملکیت ہے۔ آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ سری لنکا میں ہاتھی پالنے اور اسے اپنے گھروں میں رکھنے کا رواج ہے، جس طرح ہمارے ہاں گھوڑے پالے جاتے ہیں۔
ایک زمانے میں ہندوستان میں بھی ہاتھی پالنے کا رواج تھا اور چھوٹی بڑی ریاستوں کے راجے مہاراجے اور صاحب حیثیت لوگ ہاتھی پالتے تھے۔ کبھی کبھی تو بادشاہ کسی غریب درباری کو سزا دینے کے لیے اسے ہاتھی تحفے میں دیتے تھے۔ بے چارہ اس کی خدمت اور خوراک میں ادھ موا اور کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جاتا تھا کیونکہ اسے بیچنا شاہی تحفے کی توہین کے مترادف تھا جس کی سزا بہت کڑی ہوتی تھی۔
راجوں مہاراجوں کے اس دور میں فوج میں ہاتھیوں کے دستے بھرتی کیے جاتے تھے۔ زیادہ ہاتھیوں والے راجے سے سب دبتے تھے۔ ہاتھیوں کی یہ شان بان پہاڑوں سے اترنے والے مغلوں نے ختم کر دی۔ ان کی توپوں کی گھن گرج سے بدک کر ہاتھی ایسے بھاگے کہ اپنی ہی فوج کو روندتے چلے گئے۔ اس تاریخی واقعہ نے ہندوستان میں ہاتھیوں کی تاریخ بدل دی اور فوج میں ہاتھیوں کی جگہ توپوں نے لے لی۔
لیکن سری لنکا کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ وہاں ہاتھی میدان جنگ میں نہیں بلکہ امن کی تعلیمات دینے والے مہاتما گوتم بودھ کے پجاریوں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں شرکت کرتے ہیں۔
سری لنکا میں ہر سال ایک جزیرے پر واقع بودھ مت کی سب سے مقدس عبادت گاہ سے ایک جلوس برآمد ہوتا ہے جو 90 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک تفریحی شہر کانڈی کی ایک بودھ عبادت گاہ میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس جلوس کو بدھا کے دانت کا جلوس کہا جاتا ہے، جسے ایک خاص شوکیس میں بڑی خوبصورتی سے سجائے گئے ہاتھی پر رکھ کر ایک مقدس مقام سے دوسری عبادت گاہ منتقل کیا جاتا ہے۔ اور یہ اعزاز ملتا ہے ہاتھی راجہ کو۔
راجہ کی عزت و تکریم اور اس کی حفاظت کے لیے فوجی دستہ مقرر کر نے کی وجہ بھی یہی ہے۔
راجہ کے مالک ہرشا دھرما وجے کا کہنا ہے کہ ہاتھی کو فوج کی سیکیورٹی ملے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ 2015 میں ایک موٹرسائیکل سوار نے راجہ کو ٹکر مار دی تھی۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد اسے تخریب کاری کی کوشش قرار دیا تھا۔ جس کے بعد راجہ کو ہائی پروفائل سیکیورٹی دے دی گئی۔
ہرشادھرما وجے نے راجہ کی سیکیورٹی کے لیے دو پرائیویٹ گارڈز بھی رکھے ہوئے ہیں۔
مہاتما بودھ کے دانت کا جلوس ہر سال اگست میں نکلتا ہے، جس میں کم و بیش ایک سو ہاتھی شریک ہوتے ہیں۔ اپنے مخصوص لباس میں ملبوس بڑی تعداد میں بھکشو بھی جلوس کے ساتھ چلتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرم اور ڈھول بجانے والے اور آگ کے کرتب دکھانے والے بازی گر بھی جلوس میں اپنی عقیدت کا اظہار اپنے فن سے کرتے ہیں۔
90 کلومیٹر طویل جلوس کو دیکھنے لاکھوں عقیدت مند آتے ہیں۔ ہاتھیوں کے اس جلوس کی مقناطیسیت سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو سری لنکا کھینچ لاتی ہے۔
اگست میں ہونے والے اس مذہبی جشن کا نام ایسیلا ہے۔ جلوس اپنا سفر رات کے وقت کرتا ہے جس میں شامل مشعلیں اور قمقمے اس کی خوبصورتی اور چکاچوند کو دو چند کر دیتے ہیں۔ جلوس ہر رات 20 سے 25 کلومیٹر تک سفر کرتا ہے۔
جلوس کی قیادت کرنے والے ہاتھی راجہ کی عمر تو 65 سال ہی ہے، لیکن جلوس دوسرے ہاتھی بھی کوئی نوعمر نہیں ہیں۔ حالیہ جلوس میں شامل تیکری نامی ایک 70 سالہ ہاتھی سفر کے دوران ہمت ہار کر اگلی دنیا میں چلا گیا۔ جس پر جانوروں کے حقوق کے سرگرم کارکنوں نے سوشل میڈیا پر شديد نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ جلوس والوں نے تیکری کی بزرگی کا بھی لحاظ نہیں کیا اور اسے لمبے سفر میں جھونک دیا۔