تئیس برس کا عمر فیاض پرے بھارتی فوج میں لیفٹننٹ تھا اور متنازعہ کشمیر کو نئی دہلی اور اسلام آباد کے زیرِ انتظام حصوں میں تقسیم کرنے والی حد بندی لائین کے اکھنور علاقے میں تعینات تھا۔ وہ وادئ کشمیر اپنے گھر چھٹیوں پر آیا تھا۔
عہدیداروں کے مطابق، پرے منگل کی شام جنوبی ضلع کلگام کے ایک دوردراز گاؤں بٹہ پورہ میں اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے ہاں ہونے والی شادی کی ایک تقریب میں شرکت کرنے کی غرض سے موجود تھا کہ وہاں اچانک نقاب پوش مسلح افراد داخل ہوئے اور اُسے بندوق کی نوک پر اپنے ساتھ زبردستی لے گئے۔
بُدھ کی صبح اُس کی گولیوں سے چھلنی لاش ہمسایہ ضلع شوپیان کے حرمین نامی دیہات میں ملی۔
عہدیداروں نے فوجی افسر کے اغوا اور قتل کے لئے عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ تاہم، شورش زدہ کشمیر میں سرگرم کسی بھی عسکری تنظیم یا گروپ نے تاحال واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سید مجتبےٰ گیلانی نے گزشتہ روز نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وادی کشمیر میں اس وقت 200 کے قریب عسکریت پسند سرگرم ہیں اور ان میں سے اکثر مقامی کشمیری ہیں اور مسلم اکثریتی وادی کے جنوبی اضلاع جن میں کلگام اور شوپیان کے علاوہ پلوامہ اور اننت ناگ شامل ہیں میں موجود ہیں۔
بھارتی فوج نے قتل کئے گئے افسر کو خراجِ عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک پڑھا لِکھا کشمیری مسلمان نوجوان تھا جو گزشتہ دسمبر میں فوج کے راجپوتانہ رائفلز میں بھرتی ہوا تھا اور پہلی چھٹی پر تھا جو اس کے لئے آخری چھٹی ثابت ہوئی۔ اپنے مختصر بیان میں فوج نے کہا ہے، "فوج اس باہمت کو سلام پیش کرتی ہے اور اس عظیم سانحہ کے موقعے پر سوگوار خاندان کے ساتھ ہے اور عہد کرتی ہے کہ اس گھناؤنی حرکت کے مرتکب افراد کو جلد کیفرِ کردار تک پہنچا کر انصاف کا تقاضہ پورا جائے گا"۔
بھارت کے وزیرِ دفاع ارون جیٹلے نے فوجی افسر کے قتل کو ’’دہشت گردوں کی طرف سے کی گئی ایک بزدلانہ حرکت‘‘ قرار دیا ہے؛ اور کہا ہے کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان افسر ایک رول ماڈل تھا۔
جیٹلے نے اپنی کئی ایک ٹویٹس میں یہ بھی کہا کہ پرے کی قربانی وادئ کشمیر کے نوجوانوں کو ہمیشہ جوش دلاتی رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پرے کا بہیمانہ قتل بھارتی حکومت کے کشمیر سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے عزم کو تقویت دے گا۔
صوبائی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی فوجی افسر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ جان کر اور بھی زیادہ دکھ ہوا ہے کہ مقتول اپنے گھر چھٹی پر آیا ہوا تھا اور اپنے ایک کزن کی شادی کی تقریب میں شریک تھا جب اسے اغوا کیا گیا۔ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی بھارت نواز جماعت، نیشنل کانفرس اور بھارت کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے واقعے کی مذمت کی ہے، جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر آکر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔