کراچی —
صوبہٴ سندھ کے شہر، میہڑ میں سات سال قبل مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی کائنات سومرو تاحال انصاف کی منتظر ہے۔
سال 2007 میں میہڑ میں کائنات سومرو نامی لڑکی کو اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ 13 سال کی تھی اور آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھی۔ اسکول سے گھر واپسی ہر اسے گاوں کے چند با اثر نوجوانوں نے مبینہ طور پر اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پچھلے سات برسوں سے اب تک کائنات سومرو انصاف کی جنگ لڑ رہی ہے، جسمیں اس نے اپنے بھائی کو کھو دیا۔
کاِئنات کا کہنا ہے کہ ’اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے نو دن کے بعد، ایف آئی آر درج کی گئی‘۔
اُن کے بقول، زیادتی کے ملزمان کی نشاندہی کے باوجود، انھیں گرفتار کرکے، پیسے لے کر چھوڑ دیا گیا اور کہا گیا کہ جرگہ کرکے معاملہ رفع دفع کردو۔
’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو میں، زیادتی کی شکار بچی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کہا گیا کہ پیسے لےلو اور یہ کیس ختم کردو۔ 70 لاکھ روہے دینے کا کہا گیا۔ کہ قصہ ختم کرو‘۔
بقول کائنات، ’پولیس وڈیروں کے ساتھ ملی ہوئی تھی‘۔
انھوں نے بتایا کہ ’مگر ہم نے ایسا نہیں کیا۔ ایک مولوی نے جھوٹی گواہی دی کہ اس بچی کا نکاح ہو چکا ہے اور یہ اسکی بیوی ہے۔ کوئی بتائے کیا 13 سالہ لڑلی کا نکاح ہوتا ہے؟
کائنات کے ساتھ زیادتی کیخلاف آواز اٹھانے پر ملزمان تو کیا گرفتار ہوتے، کائنات اسکے بھائیوں کو جھوٹے کیسز میں ملوث کرکے الٹا انکے خلاف مختلف کیسز میں ایف آئی آر درج کروا دیں۔
اُن کے بقول، ’ملزمان نہیں پکڑے گئے۔ دو بھائیوں کو جھوٹے کیسز میں جیل بھجوا دیا اور ایک بھائی کو ضمانت کے بعد اغوا کرکے جان سے مار دیا گیا۔ لگتا ہے انصاف صرف پیسوں والوں کو ملتا ہے۔ ہم غریب لوگ ہیں۔ اس لئے کہیں کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ اور ملزمان کھلے عام گھوم رہے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’اس واقعے میں میری پڑھائی ختم ہوگئی۔ بھائی مار دیا گیا، گھر والے دربدر ہوگِئے۔ بس ہمیں انصاف چاہئے‘۔
زیادتی کی داستان سناتے ہوئے، وہ کہتی ہے کہ ’میں بھی اسکول جاتی تھی عام بچیوں کی طرح پڑھتی تھی۔ آٹھ برس بیت گئے ہم در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں. اب اگر کہیں پڑھنے کا سوچتی بھی ہوں تو جان کا خطرہ لگا رہتا ہے، جبکہ گھر سے باہر نکلتے بھی ڈر محسوس ہوتا ہے۔ پوری زندگی تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔‘
کائنات کے والد کے بقول، ’زندگی میں بس انصاف کیلئے لڑ رہے ہیں۔ گزارہ کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ سندھ کے گاوٴں سے کراچی آئے ہیں صرف انصاف کی خاطر۔ باہر نکلیں گے، تو قتل کردئے جائینگے‘۔
اُن کے الفاظ میں: ’آج بھی ان مصائب کا سامنا کر رہے ہیں کہ سات سال میں نہ کسی خاندان والے کے غم میں جا سکے نا خوشی میں شریک ہو سکے ہیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’دوسرے کیسز میں ملزمان پکڑےجاتے ہیں۔ جبکہ، میں نے بیٹا کھودیا ہے اسکے باوجود، ہمارے کیس کے ملزمان گرفتار نہیں کئےگئے‘۔
کائنات کے والد کا مزید کہنا تھا کہ ’روز یہی سوچتے ہیں کہ کل کا سورج ہمیں انصاف دلوائے گا۔ پھر شام ہوجاتی ہے۔ پھر کل وہی امید شروع کرتے ہیں کہ کبھی کوئی مسیحا آئےگا۔ ہماری مدد ہوگی۔ ظاموں کو سزا ملےگی۔‘
جرمنی میں کائنات کی کہانی پر بننےوالی فلم
کائنات سومرو کےساتھ پیش آنےوالے اس واقعے پر ڈاکیومینٹری فلم بنائی گئی ہے، جسے برلن میں سینما فور پیس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ اس فلم کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ برلن کی جانب سے زیادتی کا شکار کائنات کو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
اس ایوارڈ کے حوالے سے کائنات کا کہنا تھا کہ ’میں اس ایوارڈ کو پہلی کامیابی تصور کرتی ہوں۔ مگر، اصل کامیابی اور خوشی تب ہوگی جب مجھے انصاف ملےگا اور ان درندوں کو سزا ملےگی‘۔
ادھر، ’ہیومن رائٹس کمیشن‘ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ جب تک ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ نہیں ہوتا، عام آدمی کو انصاف ملنا دشوار رہے گا۔
سال 2007 میں میہڑ میں کائنات سومرو نامی لڑکی کو اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ 13 سال کی تھی اور آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھی۔ اسکول سے گھر واپسی ہر اسے گاوں کے چند با اثر نوجوانوں نے مبینہ طور پر اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پچھلے سات برسوں سے اب تک کائنات سومرو انصاف کی جنگ لڑ رہی ہے، جسمیں اس نے اپنے بھائی کو کھو دیا۔
کاِئنات کا کہنا ہے کہ ’اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے نو دن کے بعد، ایف آئی آر درج کی گئی‘۔
اُن کے بقول، زیادتی کے ملزمان کی نشاندہی کے باوجود، انھیں گرفتار کرکے، پیسے لے کر چھوڑ دیا گیا اور کہا گیا کہ جرگہ کرکے معاملہ رفع دفع کردو۔
’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو میں، زیادتی کی شکار بچی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کہا گیا کہ پیسے لےلو اور یہ کیس ختم کردو۔ 70 لاکھ روہے دینے کا کہا گیا۔ کہ قصہ ختم کرو‘۔
بقول کائنات، ’پولیس وڈیروں کے ساتھ ملی ہوئی تھی‘۔
انھوں نے بتایا کہ ’مگر ہم نے ایسا نہیں کیا۔ ایک مولوی نے جھوٹی گواہی دی کہ اس بچی کا نکاح ہو چکا ہے اور یہ اسکی بیوی ہے۔ کوئی بتائے کیا 13 سالہ لڑلی کا نکاح ہوتا ہے؟
کائنات کے ساتھ زیادتی کیخلاف آواز اٹھانے پر ملزمان تو کیا گرفتار ہوتے، کائنات اسکے بھائیوں کو جھوٹے کیسز میں ملوث کرکے الٹا انکے خلاف مختلف کیسز میں ایف آئی آر درج کروا دیں۔
اُن کے بقول، ’ملزمان نہیں پکڑے گئے۔ دو بھائیوں کو جھوٹے کیسز میں جیل بھجوا دیا اور ایک بھائی کو ضمانت کے بعد اغوا کرکے جان سے مار دیا گیا۔ لگتا ہے انصاف صرف پیسوں والوں کو ملتا ہے۔ ہم غریب لوگ ہیں۔ اس لئے کہیں کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ اور ملزمان کھلے عام گھوم رہے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’اس واقعے میں میری پڑھائی ختم ہوگئی۔ بھائی مار دیا گیا، گھر والے دربدر ہوگِئے۔ بس ہمیں انصاف چاہئے‘۔
زیادتی کی داستان سناتے ہوئے، وہ کہتی ہے کہ ’میں بھی اسکول جاتی تھی عام بچیوں کی طرح پڑھتی تھی۔ آٹھ برس بیت گئے ہم در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں. اب اگر کہیں پڑھنے کا سوچتی بھی ہوں تو جان کا خطرہ لگا رہتا ہے، جبکہ گھر سے باہر نکلتے بھی ڈر محسوس ہوتا ہے۔ پوری زندگی تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔‘
کائنات کے والد کے بقول، ’زندگی میں بس انصاف کیلئے لڑ رہے ہیں۔ گزارہ کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ سندھ کے گاوٴں سے کراچی آئے ہیں صرف انصاف کی خاطر۔ باہر نکلیں گے، تو قتل کردئے جائینگے‘۔
اُن کے الفاظ میں: ’آج بھی ان مصائب کا سامنا کر رہے ہیں کہ سات سال میں نہ کسی خاندان والے کے غم میں جا سکے نا خوشی میں شریک ہو سکے ہیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’دوسرے کیسز میں ملزمان پکڑےجاتے ہیں۔ جبکہ، میں نے بیٹا کھودیا ہے اسکے باوجود، ہمارے کیس کے ملزمان گرفتار نہیں کئےگئے‘۔
کائنات کے والد کا مزید کہنا تھا کہ ’روز یہی سوچتے ہیں کہ کل کا سورج ہمیں انصاف دلوائے گا۔ پھر شام ہوجاتی ہے۔ پھر کل وہی امید شروع کرتے ہیں کہ کبھی کوئی مسیحا آئےگا۔ ہماری مدد ہوگی۔ ظاموں کو سزا ملےگی۔‘
جرمنی میں کائنات کی کہانی پر بننےوالی فلم
کائنات سومرو کےساتھ پیش آنےوالے اس واقعے پر ڈاکیومینٹری فلم بنائی گئی ہے، جسے برلن میں سینما فور پیس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ اس فلم کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ برلن کی جانب سے زیادتی کا شکار کائنات کو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
اس ایوارڈ کے حوالے سے کائنات کا کہنا تھا کہ ’میں اس ایوارڈ کو پہلی کامیابی تصور کرتی ہوں۔ مگر، اصل کامیابی اور خوشی تب ہوگی جب مجھے انصاف ملےگا اور ان درندوں کو سزا ملےگی‘۔
ادھر، ’ہیومن رائٹس کمیشن‘ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ جب تک ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ نہیں ہوتا، عام آدمی کو انصاف ملنا دشوار رہے گا۔