یہ یکم ستمبر 2022 کی رات ساڑھے 11 بجے کا واقعہ ہےجب بیرونِ ملک روزگار کے لیے مقیم ذیشان افضل بچوں کی خواہش پر اہلِ خانہ کے دیگر افراد کے ہمراہ کراچی کے علاقے گلستان جوہر بلاک-14 میں بلوچ آئسکریم پہنچے۔
انہوں نے آئسکریم منگوائی اور گاڑی میں بیٹھ کر ہی سب آئس کریم کھا رہے تھے کہ دو نامعلوم افراد گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کی جانب آئے، جس پر ذیشان خود بیٹھے تھے۔
ملزمان نے اسلحہ دکھا کر ذیشان سے موبائل فون اور نقدی کا تقاضا کیا۔ جواب میں ذیشان نے مزاحمت کی اور موٹر سائیکل پر سوار افراد میں سے ایک کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی۔
ڈاکو نے ہاتھ پکڑنے پر گولی فائر کی جو ذیشان کے سر میں لگی، جس سے وہ شدید زخمی ہوئے۔ اتنے میں موٹر سائیکل پر سوار ڈاکو فرار ہوگئے۔ ذیشان کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا البتہ وہ جانبر ثابت نہ ہوسکے۔
اسی طرح اتوار کی رات لیاقت آباد چار نمبر پر دوران ڈکیتی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے پنکچر کی دکان کا مالک مزمل احمد ہلاک ہوا۔ اہلِ خانہ نے پیر کو احتجاجاََ کافی دیر تک سڑک بلاک کی اور ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
ریسکیو اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق یکم ستمبر سے پانچ ستمبر تک کم از کم نو افراد ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران ہلاک ہوئے ہیں، جن میں ایک 17 سالہ لڑکا اور نوجوان عالم دین بھی شامل ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد اس زائد بتائی جاتی ہے۔ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے، پولیس حکام ایسے بھی جرائم کا بھی اعتراف کرتے ہیں جو شہری رپورٹ بھی نہیں کراتے۔
کراچی میں جرائم سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے مطابق جولائی میں شہر میں 52 افراد قتل ہوئے۔ 2154 موبائل فون چھین لیے گئے۔ 393 موٹر سائیکلیں اور 15 گاڑیاں اسلحے کے زور پر چھین لی گئیں جب کہ چوری ہونے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے اعداد و شمار اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح جون میں بھی قتل کے 44 واقعات رونما ہوئے تھے۔
پولیس نے حالیہ واقعات کے مقدمات اگرچہ درج کر کے تفتیش تو شروع کر دی ہے لیکن دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں اسٹریٹ کرائمز کے یہ واقعات نئے نہیں ہیں۔
ایسے واقعات میں ماضی میں صحافیوں اور خواتین سمیت متعدد شہری مارے جاچکے ہیں۔ شہری امور پر نظر رکھنے والے کئی تجزیہ کاروں کے خیال میں اسٹریٹ کرائمز کے واقعات فی الحال تھمنے والے نہیں ہیں اور ان میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافہ دیکھا جائے گا۔
جرائم کی روک تھام کے لیے سائنسی انداز اپنانے سے گریز
سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے سابق سربراہ جمیل یوسف کہتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کراچی آنے اور جانے والوں کا ریکارڈ مرتب کرنے کا کوئی باقاعدہ طریقہ نہیں ہے جب کہ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم کی بیخ کنی میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جان بوجھ کر گریزاں ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس سمیت دیگر سرکاری اداروں میں ایسی مافیاز موجود ہیں، جو جرائم کے انسداد میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے راستے میں خود رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 10 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی شہر میں سیف سٹی منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ شہریوں کا تحفظ حکومت کی ترجیح میں کہیں بہت نیچے ہے ۔ شہر میں دنیا کے دیگر شہروں کی نسبت کمیونٹی پولیسنگ کا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
متعدد منصوبے تاخیر کا شکار
کراچی میں سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت 10 ہزار نئے کیمرے دو ہزار مقامات پر تین مراحل میں نصب کیے جانے ہیں۔
کنسلٹنٹ نے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 29 ارب روپے بتایا ہے۔ پہلے مرحلے میں 3000 نئے کیمروں کی تنصیب کی منظوری دی جاچکی ہے جس کی تخمینہ چار ارب روپے لگایا گیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے سیف سٹی اتھارٹی کو رواں مالی سال میں پہلا مرحلہ مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے البتہ اس پروجیکٹ سے جڑے کئی پولیس افسران کے خیال میں ایسا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔
دوسری جانب سندھ پولیس کی ہزاروں خالی آسامیوں کو جہاں پر نہیں کیا جاسکا، وہیں شہر میں چلنے والی 40 لاکھ کے قریب موٹر سائیکلوں پر ٹریکرز کی تنصیب کا منصوبہ بھی التوا کا شکار ہے۔
جرائم میں اضافے کی وجوہات
ادھر سماجی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز اور پھر ان میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد قانون کی عمل داری میں کمی کے ساتھ، شہریوں کے عمومی سماجی اور معاشی حالات کا بھی پتا دیتے ہیں۔
سماجیات کے استاد ڈاکٹر فیروز علی کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا براہِ راست تعلق لوگوں کی موجودہ معاشی اور معاشرتی حالت سے جوڑا جاسکتا ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ ایک جانب ملک میں گزشتہ ماہ کے اختتام پر چار دہائیوں میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ریکارڈ کی گئی تو دوسری جانب حالیہ سیلاب سے لاکھوں کی تعداد میں متاثرہ افراد بے سر و سامانی کے باعث شہروں کا رُخ کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں، جن کے پاس وسائل نہیں اور وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے محتاج ہوچکے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے بہت سے لوگوں کے جرائم میں ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے افراد کی کفالت اور ان کے معاشی مسائل کے حل کی ذمہ داری ریاست کے ساتھ مخیر حضرات پر بھی عائد ہوتی ہے تاکہ انہیں اس مشکل صورتِ حال سے نکالا جاسکے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو نہ صرف کراچی بلکہ ملک بھر میں چوری، ڈکیتی اور چھینا جھپٹی جیسے جرائم کے واقعات میں اضافہ ہی ہوگا۔
اُدھر کراچی پولیس کی ترجمان نے بتایا کہ پولیس نے اسٹریٹ کرائمز کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیشِ نظر حکمت عملی تبدیل کی ہے اور اب پولیس اہلکاروں کا موٹر سائیکلوں پر گشت مزید بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کے لیے کراچی میں اس بار شاہین فورس کے نام سے نئی فورس قائم کی گئی ہے۔ یہ پولیس فورس موٹر سائیکل سوار اہلکاروں پر مشتمل ہو گی جو دو شفٹوں میں ڈیوٹی انجام دیں گی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے 15 انتہائی حساس روٹس ترتیب دیے گئے ہیں، جہاں شاہین فورس میں شامل ٹیمیں صبح شام گشت کریں گی اور علاقے میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں فوری رسپانس دیں گی۔ شاہین فورس میں شامل جوانوں کو بلٹ پروف جیکٹس، ریفلکٹنگ جیکٹس، جدید موٹر سائیکلیں، اسلحہ اور واکی ٹاکی سیٹ فراہم کیے گئے ہیں تاکہ اسٹریٹ کرائمز سے متعلق کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع فوری طور پر شاہین فورس میں شامل جوانوں تک پہنچائی جا سکے۔
کراچی پولیس نے جولائی میں قتل کے 54 کیسز کے علاوہ ڈکیتی کے 396، چوری کے 173 مقدمات درج کیے ہیں لیکن شہری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی رپورٹنگ کی تعداد بہت کم ہے اور ان جرائم کا شکار ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔