کراچی میں سما ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی کی ڈکیتی کی واردات ناکام بنانے کی کوشش کے دوران ہلاکت کے بعد شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز اور امن و امان کی صورتِ حال دوبارہ موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
صحافی اطہر متین جمعے کی صبح کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب ڈاکو ایک شہری کو لوٹ رہے تھے اور اس دوران اطہر متین نے ڈکیتی ناکام بنانے کی غرض سے گاڑی ڈاکوؤں پر چڑھا دی تھی۔ تاہم ایک ڈاکو نے اُن کی گاڑی پر فائرنگ کر دی تھی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو گئے تھے۔
کراچی ضلع سینٹرل کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس رانا معروف عثمان کا کہنا ہے کہ ڈاکو سڑک پر موٹر سائیکل سوار ایک خاتون شہری سے لوٹ مار کررہے تھے۔
پولیس کے مطابق فائرنگ کے بعد ڈاکوؤں نے اپنی موٹر سائیکل دوبارہ اسٹارٹ کی تو وہ اسٹارٹ نہ ہوئی جس پر وہ سڑک کے دوسری جانب ایک اور شہری سے موٹر سائیکل چھین کر فرار ہوگئے۔
اطہر متین نے سوگواران میں دو بیٹیاں اور اہلیہ چھوڑی ہیں۔ وہ اس سے قبل 'اے آر وائی نیوز' سمیت متعدد نیوز چینلز میں کام کرچکے ہیں جب کہ کراچی ڈائریز کے نام سے اپنا یوٹیوب چینل بھی چلا رہے تھے۔
کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز
کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں گزشتہ کئی ماہ سے کافی تیزی نظر آ رہی ہے۔ سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر میں ڈکیتی مزاحمت پر صرف رواں سال کے پہلے ماہ میں 11 شہریوں کو ہلاک اور دو درجن سے زائد کو زخمی کیا گیا۔
اس ایک ماہ کے دوران شہر میں موبائل فونز ، کاریں اور ڈکیتی اور چوری کے کل سات ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ 2021 میں ڈکیتی مزاحمت کے دوران 62 افراد قتل ہوئے اور روزانہ اوسطًاً 11 ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں۔ ہر ماہ اوسطاً 4 ہزار موٹر سائیکلیں چوری کر لی گئیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ وارداتیں جو پولیس نے رجسٹرڈ نہیں کیں ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اسی طرح 2020 میں 54 افراد اور 2019 میں 44 افراد کراچی کی سڑکوں پر ڈکیتیوں کے دوران مارے گئے۔ جب کہ زخمیوں کی تعداد ان سالوں کے دوران سینکڑوں میں ہے۔ رواں سال جنوری میں ماں اور بہن کے سامنے لوٹ مار کرتے ہوئے نوجوان شاہ رخ کو قتل کرنے کی دلخراش ویڈیو سامنے آئی تھی۔ جس میں ایک پولیس اہلکار اور اس کا ایک ساتھی ملوث پایا گیا تھا۔
بے روزگاری اسٹریٹ کرائمز بڑھنے کی وجہ؟
کراچی پولیس کے حال ہی میں تعینات ہونے والے پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کی روک تھام پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے غلام نبی میمن نے یہ اقرار کیا کہ اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے کے حوالے سے پولیس کو اپنی کارکردگی بہترین بنانا ہو گی۔
اُن کے بقول اس مقصد کے لیے اسٹریٹ کریمنلز کا پرانا ریکارڈ بھی چیک کرنا ہوگا اور ایسے کیسز کی شناخت بھی ضروری ہے۔
اُن کے بقول انٹیلی جنس آپریشنز کر کے ایسے عناصر کو مستعد پولیسنگ کے ذریعے کنٹرول کرنا بھی ضروری ہے۔
غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ اسٹریٹ کرائم کی ایک بڑی وجہ بے روزگاری بڑھنا بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منشیات استعمال کرنے والے اکثر افراد بھی اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
ادھر صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی موٹر سائیکل قبضے میں لے کر تفتیش شروع کر دی گئی ہے جنہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ اس کیس میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کرے گی۔ سعید غنی نے کہا کہ قاتلوں کو پکڑنے کی ہماری ذمہ داری ہے جب کہ ہلاک ہونے والے صحافی کے اہلخانہ کے لیے بھی سندھ حکومت سہارا بنے گی اور ہر طرح سے مدد کی جائے گی۔
سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کے سابق سربراہ اور سیکیورٹی ماہر جمیل یوسف اس حوالے سے الگ موقف رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ شہر میں امن و امان کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ صوبائی دارالحکومت میں اس قدر کرائم ریٹ بڑھنے کے باوجود بھی کراچی سیف سٹی منصوبے پر اب تک کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
اُن کے بقول منصوبے کے تحت کراچی میں 10 ہزار سیکیورٹی کیمروں کی تنصیب کی جانی ہے۔ ان میں سے کچھ 12 میگا پکسلز اور کچھ 8 میگا پکسلز کے ہوں گے۔ اور یہ کیمرے شمسی توانائی پر چلائے جائیں گے۔ اس منصوبے پر تقریبا 30 ارب روپے کی لاگت آنی ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے اس بارے میں اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نظر نہیں آتی۔