ایک نئی مطالعاتی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فائزر اور بائیواین ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 کی ویکسین کی دو خوراکیں چھ ماہ تک مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ دوسری خوراک کے بعد انسان وائرس کے اثرات سے بچا رہتا ہے اور اسپتال داخل ہونے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
فائزر کے تحقیق کاروں کے علاوہ امریکہ میں قائم صحت کی دیکھ بھال سے وابستہ ادارے، کائزر پرماننٹے کے تقریباً تین کروڑ 40 افراد کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا۔ ریکارڈ کا یہ جائزہ دسمبر 2020ء اور اس سال اگست تک کے دورانیے سے تعلق رکھتا تھا، جن کا کائزر کے جنوبی کیلی فورنیا کے ہیلتھ انشورنس اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں سے وابستہ ارکان سے تعلق تھا۔
یہ مطالعہ، جو پیر کے روز 'دی لانسے میڈیکل جرنل' میں شائع ہوا ہے، اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد یہ کم از کم چھ ماہ کے لیے ڈیلٹا جیسے انتہائی متعدی ویرئنٹ کے خلاف 93 فی صد حد تک مؤثر ہے۔
لیکن، تحقیق کاروں نے اس بات کا بھی پتا چلایا ہے کہ چھ ماہ کی مدت پوری ہونے کے ایک ماہ بعد 88 فی صد سے کم ہو کر 47 فی صد رہ جاتی ہے۔
یہ نئی معالعاتی رپورٹ اسی دن شائع ہوئی ہے جب ادویات سے متعلق یورپی یونین کے ادارے نے 18 اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کو فائزر اور بائیو این ٹیک کی کووڈ 19 ویکسین کے بوسٹر شاٹس لگانے کی منظوری دی ہے۔ تاہم، یورپی یونین نے بوسٹر لگانے یا نہ لگانے کی اجازت دینے کو رکن ملکوں کا انفرادی فیصلہ قرار دیا ہے۔
یورپی میڈیسن ایجنسی نے پیر کے دن ایک بیان میں کہا ہے کہ فائزر ویکسین کی بوسٹر ڈوز کا معاملہ 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کو فائزر کی دوسری خوراک لگنے کے چھ ماہ کے بعد زیر غور لایا جا سکتا ہے۔
ادارے نے کہا ہے کہ جن حضرات کی قوت مدافعت انتہائی ناقص ہے انھیں فائزر یا موڈرنا ویکسین کی تیسری خوراک دی جا سکتی ہے۔ یہ خوراک دوسری خوراک لگنے کے کم از کم 28 دن کے بعد دی جا سکتی ہے۔
یہ ہدایت نامہ ایسے میں سامنے آیا ہے جب یورپی یونین کے کچھ ارکان نے پہلے ہی بوسٹر شاٹس لگانے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے، جب کہ دیگر رکن ملک اس بات پر غور کر رہے ہیں آیا اپنے شہریوں کو بوسٹر لگایا جائے۔
دریں اثنا، پیر کو 'نیو یارک ٹائمز' نے خبر دی ہے کہ 'جانسن اینڈ جانسن' خوراک اور ادویات کے نگران امریکی ادارے کو یہ درخواست دینے والا ہے کہ کووڈ 19 کی سنگل ڈوز ویکسین دیے جانے والے افراد کے لیے بوسٹر لگانے کی اجازت دی جائے۔
[اس خبر میں شامل کچھ معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہے]