سوڈان میں اپوزیشن نے فوجی اقتدار اور گزشتہ ہفتے فوج کے صدر دفتر کے باہر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے مظاہرین کی ہلاکتوں پر سول نافرمانی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ اپریل میں سوڈان کی فوج نے طویل عرصے سے برسر اقتدار صدر عمر البشیر کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملکی نظم و نسق چلانے کے لیے عبوری فوجی کونسل قائم کر دی تھی۔
فوجی اقتدار کے خلاف سوڈان میں حزب اختلاف کی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ اقتدار جلد از جلد عوام کو منتقل کیا جائے۔
اس ضمن میں گزشتہ کئی دنوں سے دارلحکومت خرطوم میں فوج کے صدر دفتر کے باہر اپوزیشن کا دھرنا جاری تھا جس پر پیر کے روز فوج کی فائرنگ کے نتیجہ میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مظاہروں کی قیادت کرنے والے سوڈان کی پروفیشنل ایسو سی ایشن نے کہا کہ وہ اتوار سے ازسرنو مزاحمت شروع کریں گے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک فوجی کونسل اقتدار عوام کو منتقل نہیں کر دیتی۔
سوڈان کی وزارت صحت کے مطابق پیر کو سیکورٹی فورسز کی مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجہ میں 61 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد سو سے زیادہ ہے۔
اپوزیشن کے رہنماوؑں کا کہنا ہے کہ انھوں نے فوجی کونسل سے مذاکرات کے لیے ایتھوپیا کے وزیر اعظم کی ثالثی قبول کر لی ہے۔ تاہم فوج کی کارروائی سے ہونے والی ہلاکتوں کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔
اپوزیشن نے یہ بھی دعوٰی کیا ہے کہ ایتھوپیا کے وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والے اپوزیشن کے دو رہنماوؑں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد نے عبوری فوجی کونسل میں شامل فوجی حکام اور حزب اختلاف کے رہنماوؑں سے ملاقات میں بحران کو حل کرنے کے لیے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے
ایتھوپیا کے وزیر اعظم کو اپنے ملک کے اندر اصلاحات لانے اور حریف ہمسایہ ملک اریٹیریا کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے پر خطے کے ممالک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
مظاہروں کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کا اصرار ہے کہ شہروں اور اہم شاہراہوں سے فوج کے انحلا سے قبل مذاکرات بے سود ہیں۔