حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ نے مولانا صوفی محمد کی رہائی کا حکم دیا ہے جنہیں سوات سے طالبان کو نکالنے کے لیے فوجی آپریشن میں گرفتار کیا گیا تھا۔ صوفی محمد، تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کے سسر ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت کے نفاذ میں بہت سرگرم رہے ہیں۔
کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیر مولانا صوفی محمد 1933 کو لوئر دیر کے علاقے میدان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسلامی تعلیم صوابی میں واقع پنج پیر کے مدرسے سے حاصل کی۔
80 کی دہائی میں مولانا صوفی محمد جماعت اسلامی کے سرگرم رکن رہے۔
سال 1992 تک صوفی محمد نے ملاکنڈ ڈویژن میں اپنی پوزیشن مضبوط کرلی اور اسی سال انہوں نے جماعت اسلامی کو خیرباد کہہ کر تحریک نفاذ شریعت محمدی کے نام سے اپنی جماعت بنائی۔
تحریک نفاذ شریعت محمدی کے اغراض و مقاصد میں پاکستان اور بالخصوص ملاکنڈ ڈویژن، سوات دیر اور بونیر میں تشدد کی مدد سے شریعت کے قوانین کے نفاذ تھا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ کے افغانستان میں فوجی مداخلت کے خلاف برسرپیکار طالبان کی مدد کے لئے صوفی محمد نے اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ڈیورنڈ لائن عبور کی، اس موقع پر انہوں نے افغانستان میں موجود امریکی فوج کے خلاف جہاد کرنے کا فتویٰ بھی جاری کیا۔
12 جنوری 2002 کو جنرل پرویز مشرف نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کو کالعدم قرار دے کر پاکستان میں اس کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔
افغانستان میں طالبان کی شکست کے بعد مولانا کے پاکستان لوٹنے پر انہیں گرفتار کر لیا گیا، اور وہ 2008 تک قید رہے، یہاں تک کہ اس وقت کی عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد انہیں رہائی ملی، جس کے تحت وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے سوات میں سرگرم شدت پسند تنظیموں کی قیادت کو مذاكرات کے لیے راضی کریں گے۔
16 فروری 2009 کو ملاکنڈ ڈویژن میں مولانا صوفی محمد کی کوششوں سے فوج اور طالبان کے درمیان عارضی جنگ بندی ہوئی۔
حکومت پاکستان نے سوات میں شریعت کے نفاذ کی شرط کو امن و امان کی بحالی سے مشروط کیا جس کے لئے صوفی محمد سوات میں فضل اللہ سے بات کرنے پر تیار ہوگئے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ہم عنقریب طالبان کے ساتھ مذاكرات شروع کر دیں گے، ہم انہیں کہیں گے کہ اپنے ہتھیار پھینک دیں۔ ہم توقع ہے کہ وہ ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔
اپریل 2009 کے شروع میں صوفی محمد نے یہ کہہ کر امن عمل میں ثالث بننے سے انکار کردیا کہ حکومت سوات میں شریعت کورٹ بنانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے جبکہ دوسری جانب اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ امن کی مکمل بحالی تک کسی بھی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے۔
19 اپریل 2009 کو تحریک نفاذ شریعت کے امیر نے جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چار دن کے اندر اندر ملاکنڈ کی عدالتوں سے ججز کو ہٹا کر دارلقضاء (اسلامی سپریم کورٹ) قائم کرے۔
3 جون 2009 کو پاک آرمی کے آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم میں صوفی محمد کو نائب امیر محمد عالم اور ترجمان عزت خان سمیت لوئر دیر کے علاقے اماندرہ سے گرفتار کر لیا۔
26 جولائی 2009 کو حکومت نے مولانا کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے اس پر دہشتگردی اور نقص امن کے مقدمات درج کئے۔ 2 اگست 2009 کو پولیس نے ان پر بغاوت، ریاست کے خلاف سازش اور دہشت گردوں کی فنڈنگ کے مقدمات درج کئے۔
جنوری 2011 کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کو دئے گئے اپنے بیان میں صوفی محمد نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے تعلق سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کا مقصد صرف او رصرف ملک میں شریعت کا نفاذ تھا۔
8 جنوری 2018 کو پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیر مولانا صوفی محمد کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کے احکامات جاری کردیے۔ درخواست ضمانت کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کی۔
اس وقت مولانا کی عمر 92 برس ہے۔
پیس اینڈ کنفلکٹ منیجمنٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جمیل چترالی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت ماضی کی طرح ایک بار پھر کسی خفیہ ڈیل کے تحت صوفی محمد کو رہا کر رہی ہے تو ماضی میں بھی اس طرح کی کوششیں ہو چکی ہیں جس کا انجام سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ خالصتاً عدلیہ کا فیصلہ ہے تو اس طرح کے فیصلوں سے عدلیہ پر سوال اُٹھایا جائے گا۔
جمیل چترالی نے کہا کہ دہشت گردی سے 70 ہزار سے زائد معصوم کی جانیں گئی ہیں۔ دہشت گروں کو انجام تک پہنچانے کی بجائے عدلیہ اگر انہیں رہا کرے گی تو نظامِ عدل پر سے عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔