رسائی کے لنکس

لاہور کے پارک میں خودکش حملہ، 60 سے زائد افراد ہلاک


ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کے مطابق مبینہ خود کش حملہ آور نوجوان تھا جس نے پارک کے خارجی دروازے کے نزدیک خود کو دھماکے سے اڑایا۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

پاکستان کے وسطی شہر لاہور کے ایک تفریحی مرکز میں ہونے والے مبینہ خود کش حملے میں کم از کم 60 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔

حکام کے مطابق دھماکا لاہور کے گلشنِ اقبال پارک کی پارکنگ میں اتوار کی شام ہوا جو پارک میں نصب بچوں کے جھولوں سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔

دھماکے کے وقت پارک میں لوگوں کا رش تھا جو چھٹی کا دن ہونے کے باعث تفریح کے لیے پارک آئے ہوئے تھے۔

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف نے جائے وقوعہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ دھماکہ خود کش حملے کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مبینہ خود کش حملہ آور نوجوان تھا جس نے پارک کے خارجی دروازے کے نزدیک خود کو دھماکے سے اڑایا۔

خود کش حملہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب مسیحی برادری اتوار کو اپنا مذہبی تہوار ایسٹر منارہی ہے۔

تاہم ڈی آئی جی آپریشنز لاہور نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ حملے میں کسی مخصوص طبقے یا برادری کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

عینی شاہدین نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ دھماکے کے بعد جائے واقعہ پر انسانی اعضا بکھرے ہوئے تھے۔

پنجاب حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ دھماکے میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

دھماکے کے بیشتر زخمیوں اور لاشوں کو لاہور کے جناح اسپتال منتقل کیا گیا ہے جب کہ شہر کے دیگر اسپتالوں میں بھی کئی زخمی اور لاشیں منتقل کی گئی ہیں۔

لاہور کے 'ریسکیو 1122' کے ترجمان جام سجاد حسین نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔

پنجاب حکومت کے مشیرِ صحت سلمان رفیق نے کہا ہے کہ لاہور کے تمام اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کرکے عملے کو طلب کرلیا گیا ہے جب کہ شہریوں سے خون کے عطیات دینے کی اپیل کی گئی ہے۔

خود کش حملے کے بعد لاہور کے بیشتر تفریحی مقامات اور پارک عوام کے لیے بند کردیے گئے ہیں جب کہ شہر میں سکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت کردیے گئے ہیں۔

دھماکے کے بعد پارک کو عام لوگوں کے لیے بند کردیا گیا تھا اور پولیس کے ساتھ ساتھ فوج کے دستوں نے بھی جائے واقعہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

اطلاعات ہیں کہ پاکستانی طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے شدت پسند گروہ جماعت الاحرار نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

دھماکے کے بعد وزیرِاعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی صدارت میں الگ الگ اجلاس ہوئے ہیں جن میں سکیورٹی کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔

XS
SM
MD
LG