ترکی کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ منگل کو استنبول کے ایک معروف تاریخی اور سیاحتی مرکز میں ہونے والا دھماکہ خود کش حملے کا نتیجہ تھا جس میں 10 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ترک وزیرِاعظم احمد داؤد اولو نے استنبول کے معروف سلطان احمد اسکوائر پر ہونے والے اس حملے کا الزام شدت پسند تنظیم داعش پر عائد کیا ہے۔
ترکی کے سرکاری ٹی وی پر براہِ راست نشر کیے جانے والے بیان میں ترک وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ حملے میں ہلاک ہونے والے تمام افراد غیر ملکی سیاح تھے۔
ایک ترک اہلکار نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ خود کش حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سے نو افراد کا تعلق جرمنی سے ہے۔
لاطینی امریکہ کے ملک پرو کی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دھماکے میں اس کا بھی ایک شہری ہلاک ہوا ہے۔
ٹی وی پر نشر کیے جانے ولاے اپنے بیان میں ترک وزیرِاعظم نے کہا کہ انہوں نے جرمن چانسلر آنگیلا مرخیل کو ٹیلی فون کرکے جرمن سیاحوں کی ہلاکت پر تعزیت کی ہے اور حملے کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا۔
احمد اولو نے کہا کہ جب تک داعش کا صفایا نہیں کردیا جاتا ترکی داخلی اور بیرونی محاذ اپنے اتحادیوں کے تعاون سے شدت پسند تنظیم کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔
خود کش حملہ جس مقام پر ہوا وہ استنبول کے مشہور اور تاریخی نیلی مسجد کے نزدیک ہی واقع ہے جسے دیکھنے کے لیے لاکھوں سیاح ہر سال استنبول جاتے ہیں۔
ترکی کے نائب وزیرِاعظم نعمان کرتلموس نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ جائے واقعہ سے ملنے والے انسانی جسم کے ٹکڑوں سے بمبار کی شناخت کرلی گئی ہے جو ان کے بقول 1988ء میں شام میں پیدا ہوا تھا۔
نائب وزیرِاعظم نے بتایا کہ ترک سکیورٹی اداروں کا خیال ہے کہ خود کش حملہ آور حال ہی میں شام سے ترکی میں داخل ہوا تھا اور اس کا نام مشتبہ دہشت گردوں کی فہرست میں نہ ہونے کے باعث اسے گرفتار نہ کیا جاسکا۔
حکام کے مطابق منگل کو جب خود کش حملہ ہوا اس وقت سلطان احمد اسکوائر پر سیاحوں کا رش معمول سے کہیں کم تھا جس کے باعث جانی نقصان نسبتاً کم ہوا ہے۔
دھماکے کے فوراً بعد لی جانے والی تصویروں میں جائے واقعہ پر لاشیں بکھری ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کی آواز کئی کلومیٹر دور تک سنی گئی جب کہ جائے واقعہ پر موجود پولیس کی ایک گاڑی دھماکے کی شدت سے الٹ گئی۔
ناروے کی وزارتِ خارجہ کے مطابق حملے میں اس کا ایک شہری زخمی ہوا ہے جسے مقامی اسپتال میں طبی امداد دی جارہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد سلطان احمد اسکوائر کے نزدیک واقع تمام سیاحتی اور تاریخی مراکز کو سیاحوں کے لیے تاحکمِ ثانی بند کردیا گیا ہے۔
لگ بھگ ایک سال قبل بھی ایک خاتون خود کش حملہ آور نے سلطان احمد اسکوائر کےنزدیک سیاحوں کی سہولت کے لیے قائم ایک پولیس چوکی پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا تھا۔
حملے کی ذمہ داری بائیں بازو کے ایک مقامی شدت پسند گروہ نے قبول کی تھی لیکن بعد ازاں ترک پولیس نے کہا تھا کہ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ حملہ آور خاتون کا تعلق مسلمان شدت پسندوں سے تھا۔
ترکی گزشتہ کئی ماہ سے شدت پسند تنظیم داعش کےنشانے پر ہے جب کہ گزشتہ تین عشروں سے جاری کرد علیحدگی پسند تحریک میں آنے والی حالیہ شدت اور کشیدگی میں اضافے کے باعث بھی ملک میں پرتشدد واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں انقرہ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے باہر دو خودکش بم دھماکوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل جولائی 2015ء میں شام کی سرحد کے قریب ترکی کے علاقے سرسک میں خودکش بم دھماکے میں 30 افراد ہلاک ہو ئے تھے۔ اس بم حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
امریکہ کی مذمت
دریں اثنا امریکہ نے استنبول کے تاریخی مرکز میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی کے ساتھ کھڑا ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نیڈ پرائس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ استنبول کے تاریخی قلب میں ہونے والے بہیمانہ حملے کانشانہ ترک باشندوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سیاح بھی تھے جو قابلِ مذمت ہے۔
بیان میں ترکی کو داعش کےخلاف لڑائی میں ایک "قیمتی معاون" قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی کی مدد اور تعاون جاری رکھے گا۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی استنبول میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کی ہے۔