|
پاکستان اپنا ایک اور جدید مواصلاتی سیٹلائٹ جمعرات کو خلا میں بھیج رہا ہے جسے حکام ’ڈیجیٹل پاکستان‘ کی جانب اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔
خلائی تحقیق کے ادارے ’اسپارکو‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امتنان قاضی کے مطابق ہائی پاور ملٹی مشن سیٹلائٹ (ایم ایم ون) کی مدد سے مواصلاتی استعداد میں اضافہ ہوگا۔
اسپارکو کے ڈاکٹر امتنان قاضی کہتے ہیں کہ اس سیٹلائٹ کی مدد سے ملک بھر خاص طور پر دور دراز علاقوں میں جدید کمیونیکیشن سروس، ٹی وی نشریات، موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ کی فراہمی بہتر بنانا ممکن ہو سکے گا۔
رواں ماہ پاکستان کی جانب سے بھیجا جانے والا یہ دوسرا خلائی مشن ہے۔
اس سے قبل تین مئی کو پاکستان نے اپنا پہلا سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ چین کے خلائی راکٹ چینگ ای سکس کی مدد سے چاند کے مدار میں بھیجا ہے جس سے اسپارکو کو تصاویر موصول ہو رہی ہیں۔
آئی کیوب قمر کی کامیابی کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن چکا ہے۔
نئے سیٹلائٹ ایم ایم ون کی خصوصیات کیا ہیں؟
پاکستان کا 'ایم ایم ون' مواصلاتی سیٹلائٹ ہے جو زمین کے مدار میں رہتے ہوئے مواصلاتی سہولیات فراہم کرے گا۔
یہ سیٹلائٹ وزن اور حجم کے اعتبار سے خاصہ بڑا ہے جسے پاکستانی سائنس دانوں نے چینی انجینئرز کے اشتراک سے تیار کیا ہے۔
یہ سیٹلائٹ 30 مئی کو چین کے اسپیس لانچنگ سائٹ سے خلا میں بھیجا جائے گا۔ اس سیٹلائٹ کی عمر 15 برس ہے۔
اسپارکو کے ڈاکٹر امتنان قاضی کے مطابق پاکستان کے سائنس دانوں نے یہ سیٹلائٹ تین برس میں تیار کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایم ایم ون زمین کے مدار میں 36 ہزار کلومیٹر کی بلندی خلا میں موجود ہوگا جو کہ زمین کے اعتبار سے ساکن رہے گا تاکہ پاکستان اور اس خطے کو مواصلاتی سہولیات مہیا ہو سکیں۔
پاکستان نے اپنا پہلا مواصلاتی سیٹلائٹ 2011 میں خلا میں بھیجا تھا جو کہ ابھی تک فعال ہے۔
ایم ایم ون خلا میں بھیجا جانے والا پاکستان کا دوسرا مواصلاتی سیٹلائٹ ہوگا جس کی مدد سے ملک کی مواصلاتی استعداد میں اضافہ ہوگا۔
مواصلاتی سیٹلائٹ فائبر آپٹکس کی خرابی پر متبادل ذریعہ
خلائی تحقیق کے ماہر ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) ارشد حسین سراج کہتے ہیں کہ یہ مواصلاتی سیٹلائٹ پاکستان کو ایک اور متبادل ذریعہ فراہم کرے گا کہ اگر فائبر آپٹکس خراب ہو جائے تو مواصلاتی رابطہ بحال رہ سکے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ٹیلی وژن کی براہِ راست نشریات جیسے کے کھیل کے مقابلے اس سیٹلائٹ کے ذریعے دیکھنا ممکن ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پچھلے مواصلاتی سیٹلائٹ سے ملک میں انٹرنیٹ تیزی سے پھیلا اور ٹیلی وژن نیٹ ورک بڑھ گئے۔
مواصلاتی سیٹلائٹ کے اہداف
پاکستان کے اسپیس پروگرام کے تحت خلا میں بھیجا جانے والا یہ مواصلاتی سیٹلائٹ دور دراز علاقوں میں مواصلاتی رابطوں، تیز ترین انٹرنیٹ کی فراہمی جیسے فائیو جی، ڈی ٹی ایچ ٹیلی وژن سروس جیسی سہولیات مہیا کرے گا۔
ایم ایم ون مشن کی ٹیم کے رکن ڈاکٹر امتنان قاضی نے بتایا کہ آپٹکل فائبر سے محروم علاقوں جیسے گلگت بلتستان و بلوچستان میں ٹیلی ہیلتھ اور ٹیلی ایجوکیشن کو ممکن بنایا جا سکے گا۔
ڈاکٹر امتنان قاضی نے بتایا کہ یہ سیٹلائٹ مختلف فریکوئنسی بھیجے گا جیسا کہ اس کی مدد سے جی پی ایس کے ذریعے جگہ کی تلاش میں فاصلہ چھ میٹر سے کم ہوکر ایک میٹر تک لانے میں مدد ملے گی۔
ان کے بقول اس سیٹلائٹ سے ملک میں سماجی و معاشی ترقی کی راہ میں مدد ملے گی اور لوگوں کو جدید مواصلاتی سہولیات کی فراہمی سے آسانی مہیا ہوسکے گی۔
ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) ارشد حسین سراج کہتے ہیں کہ پاکستان ایک بڑا ملک ہے اور آج کل کی دنیا میں مواصلاتی رابطے کی سہولیات ہر مرحلے میں بنیاد ضرورت اختیار کرچکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں طویل پہاڑی سلسلے اور صحرا ہیں جہاں پر فائبر آپٹکس کا نیٹ ورک بنانا مشکل کام ہے اور آج کے دور میں انٹرنیٹ کے بغیر دنیا سے منسلک ہونا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مواصلاتی سیٹلائٹ کے ذریعے دور دراز علاقوں میں بھی ٹیلی میڈیسن اور ٹیلی ایجوکیشن جیسی ضروریات مہیا ہوسکیں گی۔
پاکستان کا قومی خلائی پروگرام کیا ہے؟
پاکستان تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے تاہم خلائی پروگرام 2047 کی مدد سے جنوبی ایشیا کی یہ ایٹمی طاقت سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنا لوہا منوانے کی جستجو میں ہے۔
ڈاکٹر امتنان کہتے ہیں کہ پاکستان مختلف سیٹلائٹ پر کام کر رہا ہے اور آنے والے وقت میں پاکستان خلائی مشن میں اپنے نمایاں اہداف کو حاصل کرے گا۔
ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) ارشد حسین سراج کہتے ہیں کہ یہ سیٹلائٹ پروگرام رابطہ سازی کے ساتھ ساتھ عسکری مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ لہذا ایک ہی سرمایہ کاری میں اس سے سویلین سیکیورٹی مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں۔
رواں ماہ ہی سیٹلائٹ مشن ’آئی کیوب کیو‘ کی کامیابی کے بعد پاکستان ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جنہوں نے چاند کے مدار میں اپنے سیٹلائٹ بھیجا ہے۔
پاکستان خلا میں تحقیق میں دنیا سے پیچھے کیوں
پاکستان مسلم ممالک سمیت جنوبی ایشیا کی وہ پہلی قوت بنا جس نے کامیابی سے خلائی تجربہ سر انجام دیا تھا اور 1962 میں پاکستانی سائنس دانوں نے پہلا موسمیاتی راکٹ رہبر اول کامیابی سے بالائی فضا میں لانچ کیا تھا۔
اس آغاز کے باوجود تقریباََ 60 برس بعد پاکستان کا خلائی پروگرام محض مواصلاتی سٹیلائٹس تک محدود ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستان خلائی تحقیق کی دنیا میں اولین ملکوں کی حیثیت رکھتا تھا جس کو دیکھتے ہوئے یہ ملک حالیہ اعتبار سے پیچھے رہ گیا ہے۔
سال 1962 کے موسمیاتی راکٹ کے بعد پاکستان نے اپنا پہلا سیٹلائٹ بدر-ون 1990 میں چین کے زیچانگ سیٹلائٹ لانچنگ سینٹر سے لانچ کیا تھا۔ بدر-ون کی مدد سے پاکستانی سائنس دانوں کو ٹیلی میٹری اور دیگر سیٹلائٹ ٹیکنالوجیز میں قابل قدر تجربہ حاصل کرنے میں مدد ملی تھی۔
اس کے بعد پاکستان نے اپنا پہلا مواصلاتی سیٹلائٹ 2011 میں لانچ کیا تھا۔
حال ہی میں بھارت کی جانب سے چاند پر اپنا مشن بھیجا گیا۔ مشن چندریان کے بعد ملک میں یہ بحث زور پکڑ گئی کہ پاکستان خلائی تحقیق میں دنیا سے پیچھے کیوں رہ گیا ہے۔
جولائی 2019 میں ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں اس وقت کے وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان خلائی مشن کے لیے خلابازوں کی بھرتی کا عمل 2020 میں شروع کرے گا اور 2022 تک پاکستان کا پہلا انسان بردار مشن خلا میں بھیجا جائے گا۔
یہ اعلان بھارت کے چاند کی جانب بھیجے جانے والے مشن چندریان-ٹو کی لانچ کے دو دن بعد سامنے آیا تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
’پاکستان کا خلائی پروگرام کسی کے مقابلے کے لیے نہیں ہے‘
ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) ارشد حسین سراج کہتے ہیں کہ پاکستان کا خلائی پروگرام کسی کے مقابلے کے لیے نہیں ہے بلکہ اپنی ضروریات اور وسائل کو دیکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج جب خلائی تحقیق بنیادی تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں مددگار ہے تو پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق صحیح وقت پر اس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس کی سیٹلائٹ کی ضروریات بھی ہم سے بہت زیادہ ہیں۔ لہذا وہ اسی اعتبار سے اس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
ڈاکٹر امتنان قاضی کہتے ہیں کہ اس وقت چوں کہ پاکستان کے پاس سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ لہٰذا اسے چین کی اسپیس لانچ سائٹ سے بھیجا جا رہا ہے۔
ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) ارشد حسین سراج نے کہا کہ صرف چند ممالک کے پاس ہی اسپیس لانچ سائٹ کی سہولت موجود ہے اور اس سہولت کی موجودگی صرف اسی صورت بہتر ہے جب بہت سارے سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے ہوں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت میں پاکستان کو اپنی اسپیس لانچ سائٹ کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اس پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کو خلائی تحقیق میں مدد دے رہا ہے اس لیے اس پر انحصار زیادہ ہے جو کہ اس وجہ سے بھی ہے کہ مغرب یا امریکہ سے پابندیوں کی صورت میں ملک کا خلائی پروگرام متاثر ہوتا ہے۔
اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان معاہدے موجود ہیں جس کے تحت چین خلائی سائنس کے میدان میں پاکستان کو مدد فراہم کرتا ہے۔