رسائی کے لنکس

احمدی کمیونٹی کے فرد کی رہائی کا فیصلہ برقرار، مذہبی جماعتوں کا احتجاج


  • مبارک احمد ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے ملزم کی ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
  • فیصلے پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
  • جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جمعے کو احتجاج کی کال دی ہے۔
  • امید ہے کہ تفصیلی فیصلہ پڑھنے سے ابہام دور ہو جائے گا: جسٹس نعیم اختر افغان
  • سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملی یکجہتی کونسل کا ہنگامی اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے۔

اسلام آباد -- مبارک احمد ثانی کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے ملزم کی رہائی کا فیصلہ برقرار رکھنے پر مختلف مذہبی جماعتوں نے جمعے کو احتجاج کی کال دے دی ہے۔

بدھ کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب حکومت کی نظرِثانی درخواست منظور کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ پیغمبرِ اسلام پر مکمل اور غیر مشروط مکمل ایمان کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔

عدالت نے مختلف مذہبی تنظیموں کی طرف سے دی گئی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے ملزم مبارک احمد ثانی کی ضمانت برقرار رکھی تھی۔

مختلف مذہبی تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے جمعے کو ملک بھر میں اجتجاج کا اعلان کیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی عدالتی فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جمعے کو احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔

معاملہ کیا ہے؟

چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا جس کے مدعی تحفظ ختم نبوت فورم نامی تنظیم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ تھے۔

ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق سات مارچ 2019 کو مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر 'تفسیرِ صغیر' 30 بچوں اور 32 بچیوں میں تقسیم کی گئیں۔

مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ "تقریب کا اہتمام کرنے والے اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔"

واضح رہے کہ 'تفسیرِ صغیر' احمدی کمیونٹی کی جانب سے مرتب کردہ قرآنی تفسیر ہے جس کی تقسیم کے خلاف دسمبر 2022 میں درج ہونے والے مقدمے کے بعد پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی شخص کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم مقدمے میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔

مبارک احمد کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے چھ فروری 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

مبارک احمد کی رہائی کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نفرت آمیز مہم بھی چلائی گئی تھی۔

پنجاب حکومت کی جانب سے اس معاملے پر دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ مبارک ثانی نامی شہری کی ضمانت سے متعلق عدالتی فیصلے کے پیرا نو میں آرٹیکل 20 کی مکمل وضاحت نہیں کی گئی۔

سپریم کورٹ کے نظرِ ثانی فیصلے میں کیا ہے؟

سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس میں نظرِ ثانی درخواستوں کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا جب کہ جسٹس نعیم اختر افغان نے یہ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ فیصلے میں جید علما کی جانب سے دی گئی معاونت کو شامل کیا گیا ہے۔ فیصلے میں قرآن و حدیث کے حوالہ جات بھی شامل ہیں۔ امید ہے کہ تفصیلی فیصلہ پڑھنے سے ابہام دور ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی نظرِ ثانی درخواست منظور کرتے ہوئے لکھا کہ پیغمبرِ اسلام پر مکمل اور غیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ ان فیصلوں سے انحراف نہیں کر سکتی۔ آئین میں دیا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کا بنیادی حق آئین، قانون اور امنِ عامہ سے مشروط ہے۔

پاکستان: اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کون کرے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ مذہبی آزادی کا بنیادی آئینی حق، قانون، امنِ عامہ اور اخلاق کے تابع ہے۔ پنجاب حکومت کی نظرِ ثانی درخواست منظور کی جاتی ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ آئین پاکستان میں بھی ختم نبوت پر ایمان کو مسلمان کی تعریف کا لازمی جزو کہا گیا ہے۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا کہ اس عدالت نے چھ فروری 2024 کے آرڈر میں ان سابقہ نظیروں سے انحراف نہیں کیا۔ حکومتِ پنجاب کی نظرِ ثانی درخواست نمبر دو منظور کی جاتی ہے۔ نظرِ ثانی کی درخواستیں نمبر تین اور چار مسترد کی جاتی ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ 2019 کے وقوعے پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہو سکتا جو 2021 میں بطور جرم قانون میں شامل ہوئیں۔

سپریم کورٹ کا پہلا فیصلہ کیا تھا؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ملزم کے خلاف دفعہ 295 سی, 298 اور پنجاب کے اشاعت قرآن ایکٹ کی دفعہ سات اور نو کے تحت چھ دسمبر 2022 کو مقدمہ درج ہوتا ہے جس میں ملزم پر الزام ہے کہ وہ ممنوعہ کتاب 'تفسیرِ صغیر' کی تقسیم میں ملوث ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم پر بنیادی طور پر تین الزامات تھے جن میں پہلا الزام یہ تھا کہ پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 کی دفعہ سات اور نو کے تحت 'تفسیرِ صغیر' کی تقسیم کی گئی۔

دوسرا الزام یہ تھا کہ دفعہ 295 بی کے تحت توہینِ قرآن کی گئی جب کہ تیسرا الزام دفعہ 298 سی کے تحت احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے تحت چھ دسمبر 2022 کو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد 10 جون اور 27 نومبر 2023 کو ایڈیشنل سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ سے ملزم کی ضمانت خارج کر دی جاتی ہے جس کے بعد اس کیس کی ابتدا سپریم کورٹ میں ہوتی ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے سامنے اس کیس میں دو سوالات تھے جن میں پہلا تو ملزم کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست تھی۔ دوسرا معاملہ فرد جرم سے مختلف جرائم کو حذف کرنے کی درخواست تھی۔

عدالت کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران ملزم کے وکیل نے پہلا نکتہ یہ اٹھایا کہ ملزم کے خلاف چھ دسمبر 2022 کو جو ایف آئی آر درج کی گئی، اس کے مطابق ملزم پر الزام ہے کہ اس نے 2019 میں 'تفسیرِ صغیر' تقسیم کی ہے جو کہ پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے۔

لیکن ایسی کوئی تفسیر تقسیم کرنے پر پابندی 2021 میں لگی ہے یعنی اگر 2021 کے بعد اگر کوئی ایسی تفسیر تقسیم کرے گا تو وہ جرم کے زمرے میں آئے گا۔

فیصلے کے مطابق فوج داری مقدمات میں مقدمہ بروقت دائر کرنا اہمیت کا متقاضی ہوتا ہے۔ لیکن اس کیس میں 2019 کے الزام کی بابت ایف آئی آر 2022 کے آخر میں درج کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 12 واضح ہے کہ کسی کو بھی کسی ایسے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی جسے کرتے وقت وہ کام کسی قانون کے تحت جرم کی تعریف میں نہ ہو۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ چوں کہ 'تفسیرِ صغیر' 2019 میں تقسیم کرنا جرم نہیں تھا، اس لیے پنجاب اشاعت قرآن قانون کے تحت ملزم کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی تھی۔

سپریم کورٹ نے ملزم کے خلاف دیگر دو الزامات یعنی توہینِ قرآن اور خود کو مسلمان ظاہر کرنا، کے حوالے سے فیصلے میں کہا کہ ملزم کے خلاف نہ تو ایف آئی آر اور نہ ہی پولیس کے چالان میں ان الزامات کے حوالے سے کوئی بات ہے۔ اس وجہ سے عدالت نے دونوں دفعات فردِ جرم سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں قرآن کی سورة البقرة کی آیت نمبر 256، سورة الرعد کی آیت نمبر 40 اور سورة یونس کی آیت نمبر 99 کا حوالہ بھی دیا ہے۔

سورۃ البقرہ کی آیت میں کہا گیا ہے کہ "دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں کی جا سکتی۔"

مذہبی جماعتوں کا احتجاج کا اعلان

سپریم کورٹ کی طرف سے نظرثانی درخواست مسترد ہونے کے بعد ملک کی مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے ردِعمل دیکھنے میں آرہا ہے اور مختلف جماعتوں نے جمعے کو نماز جمعہ کے بعد ملک بھر میں اجتجاج کا اعلان کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملی یکجہتی کونسل کا ہنگامی اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے حوالے سے بات کرنا ہمیشہ سے حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس بارے میں ماضی میں کئی افراد کو صرف الزام لگنے پر ہی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں، تاہم آئینِ پاکستان اُنہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔

احمدی کمیونٹی کے افراد کا گلہ رہتا ہے کہ پاکستان میں اُنہیں مذہبی آزادی حاصل نہیں اور ان پر مقدمات قائم کر کے ہراساں کیا جاتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG