|
پاکستان کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح وفد بدھ کی صبح چین کے لیے روانہ ہو گیا ہے جہاں وہ چین کے ساتھ توانائی کے شعبوں میں واجب الادا 15 ارب ڈالر کے قرضوں کو ری شیڈول کرنے سے متعلق مذاکرات کرے گا۔
تجزیہ کاروں کے بقول ری شیڈولنگ کی رعایت حاصل کرنے کی تجویز آئی ایم ایف کی جانب سے سامنے آئی تھی جس کا مقصد پاکستان کو آئندہ برسوں میں واجب الادا غیر ملکی ادائیگیوں میں آسانی لانا ہے۔
ماہرین توانائی کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کے ذمے چین پاکستان اقتصادی رہدارای منصوبے یعنی سی پیک کے تحت لگائے گئے کوئلے کے کارخانوں کی مجموعی ادائیگیاں 420 ارب روپے یعنی تقریبا 15 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں اور سخت معاشی حالات میں اس قدر بڑی رقم حکومت کے لیے ادا کرنا تقریباً نا ممکن ہوچکا ہے۔
ان کے بقول اس صورتِ حال میں حکومت چاہتی ہے کہ چینی حکومت کو ان ادائیگیوں کو مؤخر کرنے پر قائل کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت چین کی سرمایہ کاری سے قائم کیے گئے کوئلے کے کارخانوں کو درآمد شدہ کوئلے سے مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کے لیے الگ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے لیے آمادہ کرنا چاہتی ہے۔
بجلی کے شعبے میں ادائیگیاں مسلسل کیوں بڑھ رہی ہیں؟
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قدر ادائیگیاں کیسے جمع ہوتی چلی گئیں اور یہ ادائیگیاں مسلسل کیوں بڑھ رہی ہیں؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک میں ایسے 100 سے زائد کارخانے ہیں جو بجلی پیدا کرتے ہیں۔ انہیں ویسے تو آئی پی پیز یعنی انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کہا جاتا ہے۔ لیکن اس میں کئی سرکاری پاور پروڈیوسرز کارخانے بھی موجود ہیں۔
حکومت نے ان آئی پی پیز سے معاہدے کے دوران یہ شق بھی شامل کی کہ بجلی پیدا کرنے والے ان کارخانوں کو ان کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد رکھنے پر بھی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ چاہے وہ بجلی ان کارخانوں سے حاصل کی جائے یا نہیں۔ اسے 'کپیسیٹی پیمنٹس' کہا جاتا ہے اور صارفین کو دیے جانے والے بلز میں اس وقت اس کی شرح 70 فی صد تک بلند ہو چکی ہے۔
وزارتِ توانائی کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق رواں برس جنوری تک صرف بجلی کے شعبے میں دو ہزار 635 ارب روپے کا سرکلر ڈیبٹ ہو چکا ہے اور اس میں ماہانہ اضافہ 66 ارب روپے سے زائد کا نوٹ کیا جا رہا ہے۔
یہ رقم پاکستان کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے جو رواں مالی سال کے لیے دو ہزار 120 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
آدھے کارخانوں کی 10 فی صد سے بھی کم پیداوار، مگر کیپیسٹی پیمنٹ پوری
سابق نگراں وفاقی وزیر اور تاجر گوہر اعجاز نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں موجود بجلی کے کارخانے محض 40 خاندانوں کی ملکیت ہیں۔
ان کے بقول مجموعی آئی پی پیز میں سے آدھے یعنی 53 آئی پی پیز ایسے ہیں جو 10 فی صد سے بھی کم بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ جب کہ ان میں سے بھی 25 بجلی کے کارخانے صفر پیداوار دے رہے ہیں۔ لیکن انہیں پوری کیپیسٹی پیمنٹ کی جا رہی ہے۔ ایک بجلی گھر سستی بجلی دے رہا ہے تو دوسرا بجلی گھر اس کے مقابلے میں چار گنا مہنگی بجلی بنا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب ایسے معاہدوں کو دیکھنا ہو گا اور ان سے جان چھڑانی ہو گی۔
گوہر اعجاز نے مزید بتایا کہ بعض پلانٹس 50 ارب روپے مالیت سے قائم کیے گئے اور وہ 400 ارب روپے کما چکے ہیں اور اب جب کہ وہ ناکارہ ہو چکے ہیں تب بھی انہیں تین، تین ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔
بجلی کی قیمتوں کے تعین میں صارفین کے نمائندوں کو شامل کرنے کا مطالبہ
گوہر اعجاز کا کہنا ہے کہ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ بجلی گھر چلیں یا نہ چلیں اور انہیں ہر سال ہزاروں ارب روپے ادا کرتے چلے جائیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ تاجروں کو بھی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی فیصلہ سازی میں حصہ دار بنایا جائے تاکہ صارفین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اس کے علاوہ بجلی گھروں کے کارخانوں کا ٹیرف کے تعین، اس کی لاگت کی تحقیقات کے لیے آزانہ آڈٹ کرایا جائے۔
گوہر اعجاز کے بقول چین سے دوستی پر ہر پاکستانی کو فخر ہے۔ لیکن کاروبار کا اصول یہ ہے کہ بجلی بنا کر ہی پیسے دیے جا سکتے ہیں۔ جو سستی بجلی بنائے گا اس سے بجلی خریدی جائے۔
انہوں نے کہا کہ صارف بجلی کے بند کارخانوں کا بوجھ برداشت کرنے کے اب قابل نہیں رہا ہے۔ آج پاکستان کا ہر صارف اس مسئلے پر چیخ رہا ہے کہ 80 روپے فی یوںٹ پر نہ کام کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ بل ادا کیے جا سکتے ہیں۔
گوہر اعجاز کے مطابق ملک میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر اوسطاً 25 فی صد سے بھی کم استعداد پر چل رہے ہیں۔ لیکن انہیں 692 ارب روپے کے کیپیسٹی چارجز ادا کیے گئے۔ اسی طرح ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو 50 فی صد استعداد کے باوجود 175 ارب اور آر ایل این جی پر چلنے والے پلانٹس کو 180 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کیے گئے جو محض 50 فی صد استعداد کار پر چلائے جا رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 45 فی صد خود حکومت کے چلنے والے آئی پی پیز ہیں۔ 40 فی صد کارخانے سی پیک منصوبے کے تحت لگائے گئے ہیں جب کہ 15 فی صد نجی شعبے کے پاس ہیں۔
بجلی کے شعبے میں دیرپا اصلاحات کا عمل شروع کیا جا چکا ہے: حکومت کا مؤقف
وفاقی وزیر توانائی سردار اویس لغاری اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بجلی صارف کے گھر تک پہنچنے میں سب سے زیادہ خرچہ کیپیسٹی چارجز ہی کا ہے۔ یہ خرچہ ان پلانٹس کو لگانے میں لگتا ہے۔ حکومت بینکوں سے قرضہ لے کر ایسے پلانٹس لگاتی ہے اور پھر اس پر قرضے کے ساتھ سود پر ادائیگی بھی کرنا پڑتی ہے۔ اب وہ پلانٹس چلیں یا نہ چلیں، چوں کہ وہ خرچہ کیا جا چکا ہے تو اس مد میں ادائیگی بنتی ہے۔
ادھر وزیرِ مملکت علی پرویز ملک کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں اصلاحات کا عمل شروع کر دیا ہے جس کے لیے طویل اور وسط مدت کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چینی سرمایہ کاروں اور چینی بینکوں سے گفت و شنید کرنے کے لیے وفاقی وزیرِ خزانہ اور وزیر توانائی بیجنگ جا چکے ہیں۔ تاکہ دوستوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ بجلی کے کارخانوں پر ریٹرن یعنی منافع کا نہیں بلکہ 80 فی صد قرضہ ہے جو ان کارخانوں کو قائم کرنے میں لگا تھا۔
ان کے بقول سی پیک کے تحت قائم کیے گئے منصوبوں میں قرضہ دینے والوں میں چینی بینکوں اور سرمایہ کاروں کا پیسہ ہے۔ ان معاہدوں میں بین الاقوامی ثالثی کی شقیں بھی شامل ہیں اور پاکستان اس مسئلے کا حل بات چیت سے نکالنا چاہتا ہے۔
علی پرویز ملک کے مطابق حکومت نے فوری طور پر ریلیف دینے کے لیے 200 ارب روپے کی ریکارڈ سبسڈی دے کر نچلے طبقے کے لوگوں کو بجلی کی مہنگی قیمتوں سے محفوظ کیا ہے جب کہ پاور سیکٹر کے لیے مجموعی طور پر ایک ہزار ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے۔
ان کے بقول ملک کے جنوبی علاقوں میں سستے بجلی کے پلانٹس تو موجود ہیں مگر ٹرانسمیشن لائنز نہ ہونے کی وجہ سے وہ بجلی منتقل نہیں کر پاتے۔ ٹرانسمیشن لائنز جو لگی ہیں ان کو لگانے میں بھی جو قرضے لیے گئے ان کا بوجھ بھی شامل ہے۔ اس کے بعد ڈسٹری بیوشن میں 650 ارب روپے کا نقصان بھی قیمت میں شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ پانچ روپے فی یونٹ کے ٹیکسز بھی بلز میں شامل ہوتے ہیں۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
علی پرویز ملک کے مطابق حکومت تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی جلد نجکاری کے لیے کام کر رہی ہے اور اس ضمن میں دستاویزی کام کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس شعبے میں دیرپا اصلاحات ہی سے بہتری لائی جا سکتی ہے اور اس کے لیے حکومت کام کر رہی ہے کیوں کہ حکومت کے پاس اب اس قسم کے وسائل نہیں جس سے اس قدر بڑا خسارہ پورا کیا جا سکے۔
بجلی کے شعبے میں نقصانات ختم کرنے کا حل کیا ہے؟
دوسری جانب ماہر معیشت خرم شہزاد کہتے ہیں کہ توانائی کا شعبہ کیسے کام کرتا ہے، اس بارے میں کافی کم معلومات پائی جاتی ہیں۔
خرم شہزاد کے مطابق ملک میں گزشتہ 22 برسوں میں پالیسی سازوں کی جانب سے توانائی کے شعبے میں منصوبہ بندی کی پالیسی میں کوئی سمت اور ہم آہنگی نظر نہیں آتی اور یہی تباہی کی اصل ذمہ دار ہے۔
ان کے خیال میں کیپیسٹی پیمنٹ سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ بجلی کے بلز میں بڑے پیمانے پر ٹیکسز ہیں جو بلوں کا 40 سے 45 فی صد بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ گردشی قرضوں کا حصہ، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز، چوری، ڈسکوز کے نقصانات، سبھی اس کے علاوہ ہیں۔ اور ان سب کو صارفین کے بجلی کے بلوں میں وصول کیا جاتا ہے۔
خرم شہزاد کے مطابق حکومت خود آئی پی پیز میں 50 فی صد سے زیادہ براہ راست حصص رکھتی ہے۔ خاص طور پر سی پیک منصوبوں کے تحت لگائے جانے والے بجلی کے کارخانوں میں۔ ایسے میں حکومت خود ہی زیادہ تر کیپیسٹی پیمنٹ وصول کرتی ہے۔
ان کے بقول ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور جاری کھاتوں میں مسلسل خسارے نے بھی ادائیگیوں پر بُرے اثرات مرتب کیے۔
خرم شہزاد نے کہا کہ اس کے علاوہ اگر کسی کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے تو وہ مختلف حکومتیں، پالیسی ساز اور وہ لوگ ہیں جنہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ان پالیسیوں میں تبدیلی یا ترمیم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جب کہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں سرمایہ کاری کیے بغیر جنریشن کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد میرٹ آرڈر کو بہت کم فالو کیا جاتا ہے۔ ملک میں بہتر استعداد والے بجلی پلانٹس جنوبی حصوں میں ہیں جب کہ شمال میں ناکارہ پلانٹس چلائے جا رہے ہیں۔ اس سے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح طلب میں اضافے اور کمی سمیت موسمی تبدیلی بھی عمل میں آتی ہے۔ لیکن حکومت نے اس بارے میں کوئی بہتر منصوبہ بندی کی ہی نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں فوری حل موجود ہے جیسے کہ آئی پی پیز کے قرض کو طویل مدت پر منتقل کرنا، حکومتی ٹیکسوں میں کمی اور کارخانے چلانے میں میرٹ آرڈر کی پیروی کی جانی چاہیے۔
اسی طرح ان کے بقول ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سیکٹر کی ناکاریاں ختم کی جانی چاہئیں اور انہیں صارفین پر چارج نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت کو اس کاروبار سے باہر آنا چاہیے اور کثیر خرید و فروخت کے لیے ایک مارکیٹ کو ترتیب دیا جانا چاہئے جو آزادانہ کام کرے اور وہ ڈی ریگولیٹ ہو۔ مزید یہ کہ ڈسکوز یعنی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو چھوٹا کیا جائے اور انہیں صوبائی اختیار میں دیا جا سکتا ہے۔
تاہم کئی دیگر ماہرین کے مطابق ڈسکوز کی نااہلیوں کا حل انہیں مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کرنے میں ہے۔
فورم