رسائی کے لنکس

’سپریم کورٹ کسی کی خواہش پر ازخود نوٹس نہیں لیتی‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ کسی کی خواہش پر ازخود نوٹس نہیں لیا جاتا ۔ ازخود نوٹس پہلے ایک بنچ کی سوچ ہوتی ہے اور پھر معاملہ چیف جسٹس تک جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے آخری ازخود نوٹس پر 12 ججز نے پہلے مشاورت کی تھی۔ سب کی رائے تھی کہ یہ آئینی معاملہ ہے اس پر ازخود نوٹس لینا چاہیئے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت عید کی تعطیلات کے بعد دوبارہ شروع ہوئی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

سماعت کے آغاز میں بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال صرف آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ہے، یہ تشریح وفاق پر لاگو ہو یا صوبوں پر یہ ہمارا مسئلہ نہیں، عدالت کی جو بھی رائے آئے گی تمام فریق اس کے پابند ہوں گے۔

اس پر پاکستان مسلم لیگ(ق) کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر عدالتی رائے کا احترام نہیں کیا گیا۔ افواہ ہے کہ وفاقی حکومت نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کے بعد صدارتی ریفرنس واپس لے لے گی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ یقین ہے کہ وفاقی حکومت ریفرنس کی اہمیت سے واقف ہو گی۔ امید ہے کہ وفاقی حکومت ریفرنس کی تشریح کے راستے میں نہیں آئے گی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اس معاملہ پرنئے اٹارنی جنرل بھی اپنی رائے دینا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 63 اے کے تحت نااہلی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے۔ الیکشن کمیشن سے ایک فریق سپریم کورٹ میں اپیل کے لیے آئے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کریں گے۔ پارلیمانی جمہوریت کے لیے آرٹیکل 63 اے کی تشریح ضروری ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حالیہ دنوں میں ازخود نوٹس پر تنقید کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ ازخودنوٹس کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ بنچ کی مرضی سے لیا جاتا ہے۔ ہم نے کسی کی خواہش پر ازخود نوٹس نہیں لینا ہوتا ۔ ازخود نوٹس پہلے ایک بنچ کی سوچ ہوتی ہے اور پھر معاملہ چیف جسٹس تک جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو آخری ازخود نوٹس سپریم کورٹ نے لیا اس پر 12 ججز نے پہلے مشاورت کی تھی۔ سب کی رائے تھی کہ یہ آئینی معاملہ ہے اس پر ازخود نوٹس لینا چاہیئے۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابراعوان نےدلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بحث میں عدالت کی معاونت کروں گا۔ بابر اعوان نے کہا کہ عدالت کا بڑا ادب اور احترام ہے۔

اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کی ادب کی بات کی قدر کرتے ہیں۔ کاش یہ ادب و احترام لوگوں میں بھی پھیلایا جائے۔

اس پر بابراعوان نے کہا کہ اس کام کےلیے وزارت اطلات ہے۔


جسٹس جمال نے کہا کہ لوگوں کو بتائیں کہ عدالت رات کو بھی کھلتی ہے۔ بلوچستان ہائیکورٹ رات ڈھائی بجے بھی کھلی۔

بابراعوان نے کہا کہ اس بحث میں نہیں جانا چاہیے۔وکالت میں اس سے مشکل حالات بھی دیکھے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ آرٹیکل 63 اے اور 62 کو ملا کر پڑھا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ منحرف ارکان کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس فائل ہو چکے ہیں۔نا اہلی ریفرنس کے باوجود قانونی سوال اپنی جگہ پر موجود ہے۔آرٹیکل 63 اے آئین کا حصہ ہے۔الیکشن کمیشن میں نا اہلی ریفرنس کے باوجود آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر سکتے ہیں۔سپریم کورٹ آرٹیکل 63اے کی تشریح کرے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت کے لیے آرٹیکل 63اے کی تشریح کا سوال بڑا اہم ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن انحراف پر کسی رکن کو جھوٹا اور بددیانت قرار دے سکتا ہے؟

بابر اعوان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ کسی رکن کو بدیانت یا ایماندار قرار دے سکے، پاکستان کے سب سےبڑے صوبے میں اراکین اسمبلی نے کھلے عام دوسری جماعت کو ووٹ دیے۔

تحریکِ عدم اعتماد: کیا آئین کا آرٹیکل 63 اے حکومت کو بچا سکتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:13 0:00

جسٹس اعجاز نے کہا کہ اگر مخلوط حکومت میں اراکین دوسری جماعت کو ووٹ دیں تو وہ بھی انحراف ہو گا؟ جسٹس جمال نے کہا کہ کیا نااہلی صرف ایک پارلیمانی جماعت سے دوسری میں جانے سے ہی ہوتی ہے؟ اگر کوئی ایک حلقے سے منتخب ہو اور قانون سازی سے اسی حلقے کا نقصان ہو تو کیا وہ رکن رو کر چپ ہو جائے؟

بابر اعوان نے کہا کہ جو پارٹی کے نام پر جیت کر آئے اور لگے غلط جگہ پھنس گیا ہے تو استعفیٰ دے دے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر اپنی جماعت کے خلاف جانا باضمیر ہونا ہے تو بھی استعفی ہی دینا چاہیے۔

تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ پاکستان میں استعفے دباؤ میں آ کر بھی دیے گئے اور مرضی سے بھی۔ تحریک انصاف کے اراکین کسی اور کو ووٹ دے کر ابھی تک جماعت سے منسلک ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیدھا سادا سوال ہے کہ انحراف پر ڈی سیٹ ہونے کے ساتھ نااہلی کی سزا ہونی چاہیے یا نہیں، انحراف پر ڈی سیٹ ہونے کا جو جرمانہ دیا گیا کیا عدالت اس کو بڑھا سکتی ہے؟ بابراعوان نے کہا کہ یہ صورتحال اور کیس پہلی بار عدالت کے سامنے آیا ہے۔ اس کے لیے پنڈورا باکس کھول کر اندر سے ہی دیکھنا ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آئین کی تشریح آج کے لیے نہیں، آنے والی نسلوں کے لیے کرنی ہے۔ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔ آرٹیکل 63اور 64 دونوں میں سیٹ خالی ہوجاتی ہے، لیکن دونوں ایک نہیں ہیں۔ ہمیں آئین کی ان شقوں کے مقصد تک پہنچنا ہے۔

چیف جسٹس، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہمیں آئین کے اصولوں کو دیکھنا ہے، انفرادی طور پر لوگوں کے عمل کونہیں۔ سپریم کورٹ کو 25 منحرف اراکین سے کوئی غرض نہیں۔ آپ کے موکل کو سینیٹ انتخابات سے متعلق عدالتی رائے پر عملدرآمد نہ ہونے پر تشویش ہے تو درخواست کیوں نہیں دی۔ عدالت اور ایگزیکٹو کے فنکشنز میں فرق ہوتا ہے۔ عدالت واقعہ کے رونما ہونے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ ٹھیک ہوا یا غلط۔


انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کے معاملے پر ججز کے سامنے کتنے شواہد آئے تھے، مخدوم علی خان کو معلوم ہے۔ ازخود نوٹس کے اثرات کی مثال دی جاتی ہے۔ریکوڈک میں ایگزیکٹو اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوئی۔ اگر کوئی معاملہ عدالت کے سامنے لانا چاہتے ہیں تو درخواست دیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن سے متعلق صدارتی رائے پر عملدرآمد میرے موکل کی نہیں الیکشن کمیشن کی کوتاہی ہے۔ ہائی کورٹ نے صدر سے متعلق تضحیک آمیز ریمارکس دیے صدر خاموش رہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ الیکشن سے متعلق ایک درخواست دکھا دیں جو آپ کی جماعت کی طرف سے آئی ہو۔ صدر سے متعلق ریمارکس اگر درست نہیں تو درخواست دیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ بات سوچیں کہ یہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے اور تمام متاثرہ فریقوں نے اسی کے سامنے آنا ہے۔

عدالت نے تحریک انصاف کی آئینی درخواست پر بھی فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں گزشتہ حکومت کی طرف سے دائر کردہ ریفرنس پر سماعت جاری ہے۔ عمران خان حکومت نے منحرف ارکان کو تاحیات نااہل قرار دلوانے کے لیے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف اس کیس کے ذریعے اپنے منحرف ارکان کے خلاف صرف ڈی سیٹ نہیں بلکہ اس سے زیادہ کی کارروائی چاہتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے وکیل مخدوم علی خان اس کیس میں دلائل دے چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG