سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل کے تمام چھ مجرموں کو قبل از وقت رہا کر دیا۔ان میں ایک خاتون قیدی نلنی مروگن بھی شامل ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک مجرم اے جی پیراری والن کا ذکر کیا جنھیں عدالت نے دستور کی دفعہ 142 کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے رواں سال مئی میں رہا کر دیا تھا۔ اس مقدمے میں سات مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
راجیو گاندھی کو 21 مئی 1991 کو تمل ناڈو کے سری پیرومبدور میں ایک انتخابی ریلی میں سری لنکا کی عسکری تنظیم ’ایل ٹی ٹی ای‘ کے ایک خود کش حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ خودکش بمبار خاتون کا نام دھنو تھا جس نے راجیو گاندھی کو ہار پہنانے کے بہانے بم سے اڑا دیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 46 سال تھی۔
عدالت نے کہا کہ تمل ناڈو کابینہ نے 2018 میں گورنر سے سفارش کی تھی کہ وہ سزا یافتہ افراد کو رہا کر دیں۔ گورنر اس حکم کو ماننے کے پابند تھے۔
جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس بی وی ناگ رتن کے بینچ نے فیصلے میں کہا کہ اے جی پیراری والن کے معاملے میں مئی میں دیے گئے عدالتی فیصلے کا اطلاق یہاں بھی ہوتا ہے۔ پیراری والن نے جیل میں 30 برس گزارے تھے۔
عدالت نے کہا کہ سزا یافتہ افراد نے جیل میں اطمینان بخش کردار کا مظاہرہ کیا، تعلیم حاصل کرکے ڈگری پائی، ایوارڈز پائے، کتابیں لکھیں اور سماجی خدمات میں بھی حصہ لیا۔ نلنی کے وکیل پی پوگالنتھی نے فیصلے پر اپنی خوشی کا اظہار کیاہے۔
سپریم کورٹ نے راجیو گاندھی کی بیوہ اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی مداخلت پر 2000 میں نلنی کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلا تھا۔ سونیا گاندھی کی بیٹی پرینکا گاندھی نے 2008 میں ویلور جیل میں نلنی سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ وہ نفرت اور انتقام میں یقینی نہیں رکھتیں۔
گرفتاری کے وقت نلنی حمل سے تھیں۔ جیل میں ہی ان کی بیٹی کی پیدائش ہوئی جس کی پانچ سال کی عمر تک جیل میں پرورش کی گئی۔ نلنی اِس وقت اپنی عمر کی پچاسویں دہائی میں ہیں۔
باقی قیدیوں کی سزا بھی 2014 میں عمر قید میں بدل دی گئی تھی۔ اس وقت کی وزیر اعلیٰ جے للتا نے ان تمام کو رہا کرنے کی کارروائی شروع کی تھی۔
قیدیوں میں نلنی واحد فرد تھیں جو جائے حادثہ پر موجود تھیں۔ ایک تصویر میں انھیں حملے سے قبل دھنو کے ساتھ کھڑے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ حملے کے بعد وہ اور ان کے شوہر مروگن چنئی شہر چھوڑ کر دوسری جگہ روپوش ہو گئے تھے۔ لیکن بعد میں پکڑے گئے۔
کانگریس پارٹی نے اس فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ سونیا گاندھی سے متفق نہیں ہیں جنھوں نے ان کی رہائی کی اپیل کی تھی۔ کانگریس نے اس فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔
کانگریس کے ترجمان میم افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ راجیو گاندھی کا قتل محض ایک قتل نہیں تھا بلکہ وہ دہشت گردی تھی۔ ایک سابق وزیر اعظم کے خلاف بھی اور ملک کے خلاف بھی۔ لہٰذا ان کے قاتلوں کو رہا کرنا قرین انصاف نہیں۔
انھوں نے کہا کہ سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی نے ایک خاتون مجرم نلنی کے ساتھ رحمدلی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی تمام مجرموں کو بھی رہا کر دیا جائے۔ انھوں نے راجیو گاندھی کے قتل کی سازش تیار کی اور اسے عملی جامہ پہنایا۔ کانگریس اس فیصلے کے خلاف قانونی امکانات تلاش کرے گی۔
ان کے بقول عدالت نے ایسا فیصلہ کرتے وقت ملک کی خود مختاری کو نظر میں نہیں رکھا۔ راجیو گاندھی کا قتل بھارت کی سالمیت پر حملہ تھا۔ یہ بہت افسوسناک ہے کہ سپریم کورٹ نے ایسا فیصلہ سناتے وقت اس معاملے پر ملک کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔
پارٹی کے سینئر رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سونیا گاندھی اپنے خیالات رکھنے کے لیے آزاد ہیں۔ لیکن پارٹی ، احترام کے ساتھ، ان کے خیالات سے متفق نہیں ہے۔ پارٹی نے اس معاملے میں اپنا موقف برسوں قبل واضح کر دیا تھا۔ راجیو گاندھی کا قتل کسی دوسرے جرم کے مماثل نہیں تھا۔ یہ ایک قومی معاملہ ہے کوئی مقامی قتل نہیں۔
ان کے بقول ہمارا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے۔ یہ ایک ادارہ جاتی معاملہ ہے۔ اس کا تعلق ملک کی سلامتی، خود مختاری اور شناخت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت قیدیوں کو رہا کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوئی تھی۔ نہ تو سابق کانگریس کی حکومت اور نہ ہی موجودہ بی جے پی کی حکومت۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کانگریس اپنی حلیف جماعت ڈی ایم کے سے بھی متفق نہیں ہے جو تمل ناڈو میں برسراقتدار ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ وہ تو حلیف ہیں ، پارٹی تو سونیا گاندھی کے موقف سے بھی متفق نہیں ہے۔
کانگریس کے جنرل سیکرٹری اور کمیو نی کیشن انچارج جے رام رمیش نے بھی فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ پارٹی اس پر سختی سے تنقید کرتی ہے۔
ادھر تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اسے جمہوری نظریے اور مضبوط قانونی لڑائی اور انسانیت کی جیت قرار دیا۔
نلنی نے رہائی کے بعد ایک نشریاتی ادارے نیوز 18 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں۔ میں نے جیل میں برسوں گزارے ہیں۔ گزشتہ 32 گھنٹے میرے لیے سخت قانونی لڑائی کے تھے۔ میں تمل ناڈو کے عوام اور وکلا کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے میری حمایت کی۔
نلنی نے جیل میں ایک کتاب لکھی ’راجیو قتل: پوشیدہ سچائی اور نلنی پرینکا ملاقات‘۔ اس میں انھوں نے پرینکا گاندھی سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے 2016میں اخبار ’دی ہندو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پرینکا سے ملاقات کا دن ان کے لیے خاص تھا۔ ان کو یہ امید ہو چلی تھی کہ گاندھی خاندان کو ایک دن ان کی بے گناہی پر یقین آجائے گا۔