پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے شہریوں کے کوائف کے اندراج سے متعلق قومی ادارے 'نادرا'، سندھ کی صوبائی حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو ایسے تمام اشتہاری ملزمان کے شناختی کاڈ کو بلاک کرنے اور ان کے بنک اکاؤنٹ منجمند کرنے کی ہدایت کی ہے، ’’جو عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے ہیں‘‘۔
اطلاعات کی مطابق، جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم ایک تین رکنی بینچ نے یہ ہدایت سندھ حکومت کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ایک اپیل کی سماعت کے دوران کی جس میں عدالت عالیہ نے ایک ملزم کی سزا کو ختم کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو دورانِ سماعت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور استغاثہ کی طرف سے اشہتاری قرار دئے گئے افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کے حوالے سے کی جانے والی کارروائی سے متعلق کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اشتہاری ملزمان کے بنک اکاؤنٹس کو بھی منجمند کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل اور پاکستان کے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت میں اس بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں عدالت نے پہلے کبھی ایسا غیر معمولی حکم جاری نہیں کیا اور۔ ان کے بقول، اس کے دور رس مضمرات ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "پہلے، اس طرح کے حکم کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے (عمومی طور پر) یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی (ملزم) اشتہاری ہو جاتا ہے، اسی سے متعلق ایسے احکامات جاری کیے جاتے ہیں اور یہ اس کی منقولا اور غیر منقولا جائداد تک محدود ہوتا ہے۔ لیکن، اس طرح کا جنرل آرڈر کبھی بھی پاس نہیں کیا جاتا ہے۔"
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگر ایسا ہی ایک عام حکم نامہ جاری ہو گیا ہے تو اس کے غلط استعمال کا خدشہ موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "جہاں تک کسی کے اشتہاری ہونے کی بات ہے تو جس عدالت کے سامنے یہ معاملہ زیر التوا ہے، وہ اس کے بارے میں آرڈر پاس کرے نہ کہ اس ضمن میں سپریم کورٹ کو حکم جاری کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی کو سنے بغیر ایسا ’جنرل آرڈر‘ کیسے پاس کیا جاسکتا ہے؟ لوگوں کو کئی تحفظات ہو سکتے ہیں۔ اگر ان کے شناختی کارڈ بلاک کردیئے جائیں اور ان کے (بنک) اکاؤنٹس منجمد کر دیئے جائیں تو لوگ پھر کدھر جائیں گے؟"
کامران مرتضیٰ نے مزید استفسار کیا کہ "جب تک کوئی شخص کسی معاملے میں فریق نہ ہو، اس کے بارے میں مؤثر آرڈر پاس کرنا غیر مناسب بھی ہے اور جب اس طرح کا آرڈر پاس ہو جائے جس میں متاثر شخص فریق بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی اشتہاری شخص کسی عدالت کا احترام نہیں کر رہا ہے اس کی اپنی وجوہات ہوں گی اور یہ معاملہ اس عدالت یا اس کی مقدمہ کی حد تک ہوگا۔"
پاکستان کی کسی عدالت میں زیر سماعت مقدمہ میں اگر کوئی ملزم پیش نہ ہو تو عدالت اسے اشتہاری قرار دیتے ہوئے اس کی جائداد کو ضبط کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے اور ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جن میں عدالتیں ایسے افراد کے خلاف اس طرح کی کارروائی کا حکم دے چکی ہیں۔