پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے دو مجرموں کی سزاؤں پر عملدرآمد روک دیا ہے۔
جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیر کو سماعت کے موقع پر ان کیسوں کا مکمل ریکارڈ طلب کیا اور چیف جسٹس کو درخواست کی کہ وہ مجرموں کی اپیلیں سننے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیں۔
اپیل کنندگان کی وکیل عاصمہ جہانگیر کا مؤقف تھا کہ حیدر علی اور قاری ظاہر گل نامی ملزمان کو وکیل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی انہیں فیصلے کی نقول فراہم کی گئیں۔
عاصمہ جہانگیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے سوالات یہ تھے کہ ان کو کس قانون کے تحت ملٹری کورٹ بھیجا گیا کیونکہ ان کے پاس کوئی کاغذ نہیں، اور آیا ان کو دو دفعہ سزا دی گئی۔ یہ چیزیں دیکھنے والی تھیں اسلئے عدالت نے ان کی پھانسی پر عملدرآمد روک دیا ہے اور کہا ہے کہ جو قانونی سوالات میں نے اٹھائے ہیں ان کے لیے ایک لارجر بینچ بنائے جائے اور انہیں سنا جائے۔‘‘
بینچ نے درخواست کی سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے چار مجرموں کو پھانسی دی گئی تھی۔ چاروں مجرم گزشتہ سال 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے دہشت گرد حملے میں ملوث تھے
پشاور اسکول حملے کے بعد ناصرف ملک میں پھانسیوں پر عائد چھ سالہ پابندی ختم کر دی گئی بلکہ بعد ازاں آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے دہشت گردی کے مقدمات چلانے کے لیے دو سال کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔
ان عدالتوں سے اب تک لگ بھگ ایک درجن سے زائد دہشت گردوں کو سزائے موت یا عمر قید سنائی جا چکی ہے۔
اس سال اپریل میں مسلح افواج کے ترجمان ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے اعلان کیا تھا کہ آرمی چیف نے چھ دہشت گردوں کی موت کی سزا کی توثیق کر دی ہے۔
تاہم سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران ان سزاؤں پر عملدرآمد عارضی طور پر روک دیا تھا۔ بعد ازں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کو قانونی قرار دے دیا تھا۔
حیدر علی کے والدین نے اگست میں پشاور ہائی کورٹ میں فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواست جمع کروائی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2009ء میں جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس کی عمر 14 سال کے قریب تھی۔ تاہم اکتوبر میں عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے اس کی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
اس سے قبل اکتوبر میں سپریم کورٹ نے فوجی عدالت کی طرف سے سزا پانے والے ایک اور مجرم صابر شاہ کی سزا پر بھی عملدرآمد روک دیا تھا۔ صابر شاہ پر الزام تھا کہ اس کا تعلق ایک کالعدم فرقہ وارانہ تنظیم سے ہے اور وہ ایک وکیل سید ارشد علی کے قتل میں ملوث ہے۔