میانمار کی حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ ا گر ان کی جماعت اس اختتام ہفتہ ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ صدر سے بلند عہدے پر فائز ہوں گی جو ان کی طرف سے صدر کے عہدے پر فائز ہونے کی پابندی نظر انداز کرنے کی ایک کوشش ہے۔
سوچی نے اس منصوبےکا اعلان جمعرات کو علی الصبح ایک نیوز کانفرنس میں کیا تاہم انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ،" میرا صدر سے اوپر عہدہ ہو گا۔ یہ ایک ہی سادہ سا پیغام ہے"۔
ایک آئینی شق کے تحت غیر ملکی افراد سے شادی کرنے والے یا ان کے بچے ملک کے صدر نہیں بن سکتے ہیں اور اسی بنا پر سوچی صدر کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکتیں۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں اس بارے میں تشویش ہے کہ آیا انتخابی عہدیدار اتوار کو ہونے والے انتخابات کے متعلق مبینہ بے ضابطگیوں کے تناظر میں مناسب اقدام کریں گے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اگر نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی ان انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو ان کی جماعت کے لیے ایک "قومی مفاہمت" کی حکومت تشکیل دینا اہم ہو گا۔
میانمار میں انتخابی عہدیدار ابھی بھی قومی سطح پر اتوار کو ہونے والے انتخابات کے لیے ووٹر فہرستوں کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔
یونین الیکشن کمشن نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ وہ حتمی فہرست دو نومبر کو جاری کرنا چاہتا ہے۔ تاہم ینگون کے علاقائی الیکشن کمیشن کے سربراہ 'کو کو' نے وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو منگل کو بتایا تھا کہ اس منصوبے کو تکنیکی مشکلات کی وجہ سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں ہزاروں کی تعداد میں ووٹ دینے کے اہل افراد کے ناموں کو فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
گزشتہ دو انتخابات میں ایک بڑی تعداد میں لوگوں کے نام ووٹر فہرستوں میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے میانمار کے الیکشن کمیشن کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
میانمار کے صدر تھین سین نے ایک بار پھر اتوار کو صاف اور شفاف انتخابات کروانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نتائج "عوام کی حقیقی خواہشات کا مظہر" ہوں گے۔
یہ انتخابات 2011 میں ایک نام نہاد سول حکومت کے قیام کے بعد پہلے عام انتخابات ہوں گے۔ تاہم اب بھی فوج کا اس (انتخابی) عمل پر سخت کنٹرول ہے اور انتخابات کے صاف اور شفاف ہونے کے بارے میں بڑے پیمانے پر قیاس آرئیاں کی جارہی ہیں۔