کراچی میں مندروں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی یہاں رہنے والی ہندوبرادری۔ سندھ اور خاص طور سے کراچی میں صدیوں پرانی ہندوانہ طرز تعمیر رکھنے والی عمارات آج بھی موجود ہیں۔ ہندو جم خانہ اور سوامی نارائن مندر اس کی جیتی جاگتی دلیلیں ہیں۔ یہ دونوں عمارات ہندوانہ طرز تعمیر کے ساتھ ساتھ اپنے اندر سالوں پرانی روایات کی امین ہیں۔
بندر روڑ اور فرئیرروڈ کراچی کے درمیان واقع سوامی نارائن مندر شہر کا قدیم ثقافتی ورثہ ہے۔ اس کے درو دیوار اپنے اندر نہ جانے کتنی کہانیاں لئے ہوئے ہیں۔ اگر پتھروں کو گویائی کی قوت عطاکی گئی ہوتی تو سوامی نارائن مندر نہ جانے کتنی کہانیاں سناتا۔
سوامی نارائن مندر کے قریب ہندوں کی خاصی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں تقریباً پانچ ہزار ہندو رہتے ہیں۔
سوامی نارائن مندر یا سری نرائن مندر کا سن تعمیر 1882ء بتایا جاتا ہے۔ مندر ہندووٴں کے ایک سنت کے نام سے منسوب ہے جبکہ اس کا طرز تعمیر آریہ اسٹائل کا ہے۔ اگرچہ رقبے کے لحاظ سے یہ کوئی بہت بڑا مندر نہیں تاہم اس کی تعمیر کے لئے پیلے رنگ کا جنگ شاہی اور چونے کا پتھر خصوصی طور پر کراچی لایا گیا تھا۔ جنگ شاہی کراچی سے کچھ فاصلے پر صوبہ سندھ میں ہی واقع ایک چھوٹا مقام ہے۔ ان پتھروں کو مندر کے در و دیوار میں نصب کرنے سے پہلے مختلف ڈیزائنوں میں ڈھالا گیا تھا۔
مندر اس دور کے مخصوص طرز تعمیر کے مطابق گنبد اور شکارا پر مشتمل ہے ۔ شکارا سے مراد مصری پیرامڈ نما چھت ہے جو نیچے سے اوپر جاتے ہوئے پتلی سے پتلی ہوتی چلی جاتی ہے۔
مندر ایک وسیع احاطے میں بنایا گیا ہے جس میں تقریباً آٹھ سو افراد آسکتے ہیں لیکن جیسے جیسے وقت گزررہا ہے یہ احاطہ کم سے کم ہوتا جار ہا ہے۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران اس میں سو سے دو سو ناجائز تجاوزات قائم ہوگئی ہیں جن میں رہائشی مکانات سرفہرست ہیں۔
سوامی نارائن مندر ہندو برادری کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ مندر میں ہر روز بھجن اور مقدس کتابوں کے درس معمول ہیں جبکہ خاص خاص تہواروں اور مواقع پر یہاں عقیدت مندو ں کو مفت کھانا اور پرشاد تقسیم کیا جاتا ہے۔
یہ مندر کراچی کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم جز ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ثقافتی ورثے کی حفاظت کی جائے اور اسے آثار قدیمہ کا درجہ دیا جائے۔