کراچی میں اتوار کی رات شروع ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات کا سلسلہ پیر کے روز بھی جاری رہا، جبکہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 13 ہوگئی ہے۔
شہر میں ہدف بنا کر فائرنگ کا تازہ سلسلہ اتوار کو رات گئے اس وقت شروع ہوا جب رضویہ سوسائٹی کے علاقے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک مذہبی جماعت کا کارکن ہلاک ہوگیا۔ واقعے کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں ہونے والی فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ میں مزید چھ افراد ہلاک ہوگئےتھے۔
فائرنگ کے واقعات نارتھ کراچی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، انچولی، یونیورسٹی روڈ، ابولحسن اصفہانی روڈ ، کورنگی اور فیڈرل بی ایریا کے مختلف علاقوں میں پیش آئے۔ ہلاک شدگان میں سے تین افراد کا تعلق ایک کالعدم مذہبی جماعت جبکہ ایک فرد کا ایک سیاسی تنظیم سے بتایا جاتا ہے۔ فائرنگ کے واقعات میں زخمی ہونے والے چار افراد کو شہر کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا جن میں سے ایک بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
ادھر پیر کی صبح ملیر، نیو کراچی اور نارتھ ناظم آباد میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے تین افرادہلاک ہوگئے ۔ جبکہ ابراہیم حیدری کے علاقے سے ملنے والی تشدد زدہ لاش کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 11 ہو گئی تھی۔
پیر کی شام صورتِ حال اس وقت مزید کشیدہ ہوگئی جب گزشتہ روز ٹارگٹ کلنگ ہلاک ہونے والے مذہبی جماعت کے ایک کارکن کی نمازِ جنازہ سے واپس لوٹنے والے افراد پہ نامعلوم افراد نے لیاقت آباد کے علاقے میں فائرنگ کردی۔ فائرنگ میں دو افراد کی ہلاکت اور دو کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ واقعہ کے بعد علاقے میں ہنگامہ آرائی بھی کی گئی۔
پیر کے روز شہر کے کئی علاقوں بشمول نارتھ ناظم آباد، نیو کراچی، انچولی، ملیر اور رضویہ سوسائٹی میں کشیدگی کے باعث کاروباری مراکز بند رہے جبکہ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کا گشت جاری رہا۔
ایک اندازے کے مطابق کراچی میں اس سال ٹارگٹ کلنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کے باعث اب تک 700 سے زائد سیاسی کارکنان اور عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں جن میں کئی اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ آئے روز کی ہنگامہ آرائی کے باعث شہر میں تجارتی سرگرمیاں سخت متاثر ہورہی ہیں اور تاجروں اور صنعتکاروں کو بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
ادھر پیر کے روزصوبائی الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی میں شہر کی خالی ہونے والی ایک نشست پر ضمنی انتخابات امن و امان کے خراب صورتحال کے باعث 25 روزکیلیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 94 حکمران اتحاد میں شامل جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی رضاحیدر کے گزشتہ ماہ ہونے والے قتل کے باعث خالی ہوئی تھی جس کے بعد الیکش کمیشن نے اس نشست پر 22 ستمبر کو ضمنی الیکشن کرانے کا اعلان کیا تھا۔
صوبائی الیکشن کمشنر کے ایک اعلامیہ کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے کمیشن کو دائر ایک درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے لندن میں قتل اور کراچی میں اس کے ممکنہ ردِعمل کے پیشِ نظر مذکورہ نشست پر انتخابات دس دن کیلئے ملتوی کئے جائیں ۔ کمیشن نے درخواست منظور کرتے ہوئے ضمنی انتخابات کیلیے پولنگ 17 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا ہے۔ نشست کیلیے دیگر تمام انتخابی کاروائی پہلے ہی مکمل ہوچکی ہے۔
تاہم حکمران اتحاد میں شامل ایک اور جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے انتخابات کے التواء کی مذمت کرتے ہوئے فیصلے کو "آمرانہ قدم" قرار دیا ہے۔
اے این پی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ التواء کے فیصلے نے ضمنی انتخاب کی شفافیت اور غیر جانبدارانہ انعقاد پہ سوالیہ نشان لگادیاہے۔ اعلامیہ میں حکومت کی جانب سے کی جانے والی التواء کی درخواست کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کمیشن سے فیصلے پہ نظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
صوبائی اسمبلی کی خالی نشست پہ ہونے والے ضمنی انتخاب میں نصف درجن سے زائد امیدواران میدان میں ہیں تاہم مبصرین کے مطابق اصل مقابلہ ایم کیو ایم اور اے این پی کے امیدواران کے درمیان متوقع ہے۔ گزشتہ ماہ حلقے سے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر منتخب رکن رضا حیدر کے قتل کے بعد شہر میں کئی روز جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی اور ٹارگٹ کلنگ میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔