تارکین وطن کی غیر معمولی تعداد کے یورپ کی طرف رخ کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں جمعرات کو سویڈن بھی اپنی سرحدوں پر کنٹرول سخت کر رہا ہے جو کہ ماضی کی اس کی آزادانہ پالیسیوں کے برخلاف اقدام ہے۔
اس سے قبل سویڈن نے پناہ کے متلاشیوں اور تارکین وطن کو دیگر یورپی ملکوں کی نسبت بڑی تعداد میں اپنے ہاں خوش آمدید کہا تھا اور حکام نے پیش گوئی کی تھی کہ رواں سال یہاں ایک لاکھ نوے ہزار پناہ گزین پہنچ سکتے ہیں۔
وزیر داخلہ انڈریس یگمان نے صحافیوں کو بتایا کہ " یہ باقی یورپی یونین کے لیے ہمارا واضح اشارہ ہے۔ سویڈن وہ ملک ہے جو پناہ گزینوں کے بحران میں بہترین ذمہ داری کا بوجھ اٹھا چکا ہے۔۔۔اگر ہمیں اس مشترکہ چیلنج سے نمٹنا ہے تو دیگر ملکوں کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔"
سویڈن کی طرف سے سرحدی کنٹرول کا نفاذ ابتدائی طور پر ڈنمارک سے علیحدہ کرنے والی آبنائے اوریسُنڈ کے پل اور خطے میں اس کی دیگر بندرگاہوں پر ہو گا۔ یہ اطلاق جمعرات سے شروع ہو کر دس روز تک ہو گا جسے مزید 20 دن تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
ادھر جرمنی نے بھی متنبہ کیا ہے کہ وہ شام کے پناہ گزینوں کو ان یورپی ملکوں کو واپسس بھیجنا شروع کر سکتا ہے جہاں سے وہ آئے ہیں۔
ہنگری کا اصرار ہے کہ وہ کسی کو بھی واپس نہین لے گا جب کہ سویڈن کے پڑوسی ملک ڈنمارک کا کہنا ہے کہ وہ اپنی امیگریشن کو مزید سخت کر رہا ہے جب کہ سلوینیا نے بھی بوڈاپسٹ کی تقلید کرتے ہوئے اپنی سرحد پر باڑ لگانا شروع کر دی ہے۔
رواں سال مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے ہزاروں تارکین وطن نے جنگ اور غربت سے فرار ہو کر یورپ کا رخ کیا تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔