جماعتِ اسلامی پاکستان کے سابق امیر سید منور حسن طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کر گئے ہیں۔ اُن کی عمر 78 برس تھی۔
سید منور حسن گزشہ تین ہفتے سے کراچی کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں وہ جمعے کو حرکتِ قلب بند ہونے سے جان کی بازی ہار گئے۔
وہ جماعتِ اسلامی کے چوتھے امیر تھے جنہوں نے 2009 سے 2014 تک جماعتِ اسلامی پاکستان کے سربراہ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔
سید منور حسن نے خرابی صحت کے باعث 2014 میں دوسری مدت کے لیے جماعتِ اسلامی کی امارت کا انتخاب لڑنے سے معذرت کر لی تھی۔
سید منور حسن پانچ اگست 1941 کو نئی دہلی میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سید منور حسن کا خاندان پہلے لاہور اور پھر کراچی منتقل ہو گیا۔
اُنہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی میں جیکب لائن کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ 1963 اور 1966 میں اُنہوں نے جامعہ کراچی سے پہلے عمرانیات اور پھر اسلامیات میں ماسٹرز کیے۔
سید منور حسن نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم 'نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن' کے پلیٹ فارم سے اپنی طلبہ سیاست کا آغاز کیا۔ وہ 1959 میں این ایس ایف کراچی کے صدر بھی رہے۔
بعدازاں وہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی کے نظریات سے متاثر ہو کر اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے جس کے وہ ناظمِ اعلٰی بھی رہے۔
سید منور حسن کو ان کے اندازِ خطابت کی وجہ سے بھی طلبہ اور سیاسی حلقوں میں پسند کیا جاتا تھا۔
سید منور حسن جنوری 1989 سے نومبر 1991 تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر کے منصب پر فائز رہے۔ وہ 1992 میں جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے اور بعد ازاں اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد کے ساتھ جماعت کے سیکریٹری جنرل بنے۔ وہ 2009 میں جماعت کا امیر منتخب ہونے تک سیکریٹری جنرل کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔
عام انتخابات میں ریکارڈ کامیابی
منور حسن 1977 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار اور معروف شاعر جمیل الدین عالی کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے اس انتخاب میں کراچی کے حلقے سے ایک ایسے وقت ریکارڈ ووٹ حاصل کیے تھے جب پورے ملک میں پیپلز پارٹی کا طوطی بول رہا تھا۔
لیکن اس انتخاب کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوگئی تھی جو بالآخر مارشل لا پر منتج ہوئی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں اسمبلی وجود میں ہی نہیں آسکی تھی۔
منور حسن نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 1977 میں چلائی جانے والی اس تحریک کو کراچی میں منظم کیا تھا۔
ملک کی سیاسی اور سماجی شخصیات نے سید منور حسن کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
صدرِ پاکستان عارف علوی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز سمیت اپوزیشن رہنماؤں نے بھی سید منور حسن کے انتقال پر دُکھ کا اظہار کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ پاکستان اور اسلام کے لیے اُن کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
سیاست میں فوج کے کردار کے کڑے ناقد
چھ دہائیوں سے سید منور حسن کے قریبی دوست اور کراچی میں واقع وفاقی جامعہ اُردو میں صحافت کے استاد سعید عثمانی کہتے ہیں کہ سید منور حسن اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔
اُن کے بقول منور حسن اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں بے پناہ مداخلت کی پالیسی سے سخت نالاں تھے۔ سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ وہ خود ایسے کئی واقعات سے واقف ہیں جن میں اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ افراد نے جان بوجھ کر منور حسن کو اسمبلی سے دور رکھنے کی کامیاب کوشش کی۔
1977 کے انتخابات کا تذکرہ کرتے ہوئے سعید عثمانی نے بتایا کہ پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے ٹکٹ پر سید منور حسن نے کراچی سے الیکشن لڑا اور 73 ہزار 997 ووٹ حاصل کرکے پیپلز پارٹی کے جمیل الدین عالی کو 40 ہزار کے مارجن سے شکست دی۔
لیکن مارشل لا اور اس کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال کے باعث وہ اسمبلی کا حصہ نہ بن سکے۔ بعد ازاں 1985 کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں انہیں ایک کمزور امیدوار کنور قطب الدین نے شکست دی۔
سعید عثمانی کے بقول ان کی اس شکست کے پیچھے اس وقت کی فوجی حکومت کے خلاف سید منور حسن کے سخت خیالات تھے۔ ایسے اور اس جیسے کئی واقعات نے ان کی فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف سوچ کو مزید تقویت دی جو ان کے خیالات اور افکار میں جھلکتی تھی۔
نامور صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ سید منور حسن جس موقع پر امیر جماعت اسلامی بنے اس زمانے میں اسٹیبلشمنٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ لہذٰا وہ اسٹیبلشمنٹ سے کافی نالاں رہتے تھے۔
مظہر عباس کے بقول اس موقف کی وجہ سے جماعت اسلامی کے اندر سے بھی اُن کی مخالف ہوتی تھی لیکن وہ اپنے نظریے پر ڈٹے رہے۔
مظہر عباس کے بقول جب تحریکِ انصاف کی حکومت 2013 کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں کامیاب ہوئی تو ان کی امارت میں جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کی حکومت سے اتحاد کیا۔
لیکن مظہر عباس کے بقول منور حسن نے ایک نجی محفل میں پیش گوئی کی تھی کہ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کا یہ اتحاد زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ کیوں کہ منور حسن کے بقول عمران خان کی سوچ مختلف ہے۔
مظہر عباس کے بقول سید منور حسن ایسے آدمی تھے جن کے موقف میں کم ہی لچک دیکھی گئی، اور اسی وجہ سے انہیں پارٹی کے اندر اور باہر ہر دو جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
'بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہ لانے والے امیر'
اس سوال پر کہ سید منور حسن جماعتِ اسلامی کے دیگر امرا سے کیسے مختلف تھے؟ سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ وہ ایسے امیر تھے جو بیرونی دباؤ کو بالکل ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے تھے۔
ان کے خیال میں جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے بعد آئین، دستور اور جماعت کی پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد کرانے میں منور حسن کے برابر کا کوئی اور دوسرا رہنما نظر نہیں آتا۔
عام طور پر جماعتِ اسلامی کے منتخب ہونے والے امیر ایک سے زائد بار اس ذمہ داری پر منتخب ہوتے ہیں۔ لیکن سید منور حسن صرف ایک ہی مدت کے لیے امیر رہ سکے۔
تجزیہ کار مظر عباس کے بقول کہا یہ جاتا ہے کہ ان کے سخت نظریات کے باعث وہ جماعت کے کچھ حلقوں میں بہت زیادہ مقبول نہیں تھے جس کے باعث ارکانِ جماعت نے انہیں دوبارہ امیر منتخب نہیں کیا۔
مظہر عباس کے بقول اپنے سیاسی نظریات پر مکمل بھروسہ اور ان سے کسی قسم کا انحراف نہ کرنا سید منور حسن کی شخصیت کا اہم پہلو رہا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی جماعت کے نوجوان طبقے کو بے حد متاثر کیا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ سید منور حسن کو امیر بنانے میں کافی تاخیر سے کام لیا گیا۔ اگر وہ پہلے امیر بن جاتے تو وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا زیادہ بہتر انداز میں منوا سکتے تھے۔
وسیع المطالعہ اور دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو سمجھنے والے سید منور حسن ہمیشہ سے ایک اچھے مقرر کے طور پر جانے جاتے تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان ان کے افکار اور خیالات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔
مظہر عباس کے بقول سید منور حسن نے انہیں بتایا تھا کہ وہ ایک دور میں روس کی کمیونسٹ پارٹی سے بھی بے حد متاثر تھے۔ اپنی طلبہ سیاست کا آغاز بھی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کیا لیکن پھر وہ اس دوران ہی اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بن گئے اور پھر ساری زندگی انہوں نے جماعت اسلامی کے لیے وقف کردی۔
مخالف بیانیے کے قدر دان رہنما
مظہر عباس نے بتایا کہ سید منور حسن ایک مخالف بیانیے کی موجودگی کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ جب ملک میں بائیں بازو کی سیاست کے اہم رہنما معراج محمد خان کا انتقال ہوا تو کراچی پریس کلب میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں سید منور حسن نے شرکت کر کے انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ بائیں بازو کے نظریے کے خاتمے کی وجہ سے ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔
اُن کا یہ ماننا تھا کہ دائیں بازو کا نظریہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک بائیں بازو کا ایک مخالف نیا نظریہ نہ آئے۔
ان کے قریبی دوست اور ان سے زیادہ ملاقاتیں رکھنے والے صحافی کہتے ہیں کہ بظاہر سخت گیر نظر آنے والے منور حسن نجی محفلوں میں ہنس مکھ اور طنز و مزاح سے بھرپور شخصیت تھے۔
سعید عثمانی نے بتایا کہ پانچ بھائیوں اور ایک بہن کے درمیان تقسیم ہونے والے ترکے کی رقم اور دیگر افراد سے قرض حاصل کر کے انہوں نے نارتھ کراچی میں 120 گز کا مکان خریدا تھا جس میں وہ آخر وقت تک مقیم رہے۔
عید عثمانی کے بقول اگرچہ بہن بھائیوں نے انہیں پیشکش بھی کی تھی کہ وہ اپنے حصے سے بھی مزید انہیں دینے کے لیے تیار ہیں لیکن سید منور حسن نے اپنے حصے کے علاوہ وراثت سے مزید حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔
ان کے بقول انہوں نے زندگی بھر اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کچھ نہیں بنایا اور ساری عمر جماعتِ اسلامی سے ملنے والے معمولی اعزازیے پر گزر بسر کی۔