سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ شام میں جاری حکومت مخالف شورش میں کم از کم 23افراد ہلاک ہوگئے ہیں، جب کہ حکومت نے اقوام ِمتحدہ کی اُس نئی قرارداد کو مسترد کردیا ہے جِس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اُس کی مذمت کی گئی تھی۔
انسانی حقوق سے متعلق شامی مبصرین نے کہا ہے کہ ہفتے کے روز ہونے والی زیادہ تر ہلاکتیں ترکی کی سرحد کے قریب کے ادلب علاقے میں واقع ہوئیں۔
لندن میں قائم اِس گروپ نے کہا ہے کہ فوج کی ملٹری سے بغاوت کرنے والے اہل کاروں کےساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران 15افراد ہلاک ہوئے،جِن میں تین سویلین شامل ہیں۔
دریں اثنا، شام کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کونسل کی طرف سے منظورکی جانے والی قرارداد میں شام پر انسانی حقوق کی ’بے دریغ‘ اور’ جان بوجھ کر‘ خلاف ورزیاں کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، جنھیں ’ دیدہ دلیری کے ساتھ سیاسی رنگ ‘دیا گیا ہے۔
یہ قرارداد عالمی ادارے نےجمعے کے دِن منظور کی اور شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی چھان بین کے لیے ایک خصوصی تفتیش کار کی تقرری کی بھی منظوری دی۔ خلاف ورزیوں کا سلسلہ مخالفین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن سے جا ملتا ہے۔
ہفتے کے روز شام کے سرکاری میڈیا نے وزارتِ خارجہ کے ایک عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ کونسل نے اُن دستاویزات کو ’جان بوجھ کر نظرانداز‘ کیا ہے، جنھیں حکومت ِشام نے حقائق کو واضح کرنے کے لیے فراہم کیا تھا۔
اِس سے قبل، اقوام متحدہ کی طرف سے کیے گئے ایک تجزئے کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سینکڑوں کی تعداد میں وہ بچے بھی شامل ہیں جنھیں حکومتی کارروائی کے دوران مارا گیا۔ عالمی ادارے نے کہا ہے کہ شام میں آٹھ ماہ سے جاری شورش کے دوران 4000سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہفتے کے دِن امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے شام کے ہمسایہ ملک ترکی اور اقوام متحدہ کے پینل کی تعریف کی جنھوں نے شام میں ہونے والی زیادتیوں کےخاتمے سے متعلق اقدامات تجویز کیے ہیں۔