شام کی حکومت نے کہا ہے کہ اس نے 'عرب لیگ' کی جانب سے مبصرین کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے کے مطالبے کا "مثبت" جواب دیا ہے۔
مبصرین کی تعیناتی کا مقصد ملک میں جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف جاری حکومتی فورسز کی پرتشدد کاروائیاں روکنے کے صدر بشار الاسد کے وعدے پر عمل درآمد کا جائزہ لینا ہے۔
شام کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ حکومت نے اتوار کی شب عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی کو بھیجے گئے ایک خط میں عرب لیگ کے مطالبے کا "مثبت" جواب دے دیا ہے۔
تنظیم نے شام سے اتوار تک مبصر مشن کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدم تعمیل کی صورت میں شام کےخلاف مزید اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
علاقائی ممالک کی 22 رکنی تنظیم نے تاحال شام کے جوابی خط پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اس سے قبل شام کا موقف رہا ہے کہ بڑی تعداد میں مبصرین کی ملک میں تعیناتی سے اس کی خودمختاری متاثر ہوگی۔
یاد رہے کہ عرب لیگ کے تجویز کردہ امن معاہدے کے تحت پرتشدد کاروائیوں کے خاتمے اور سرکاری افواج کا شہروں سے انخلا کا وعدہ پورا کرنے میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی ناکامی کے بعد تنظیم نے گزشتہ ماہ شام کی رکنیت معطل کرتے ہوئے اس پہ بعض پابندیاں عائد کردی تھیں۔
عرب لیگ کی جانب سے عائد کردہ تعزیرات میں شامی قیادت کے بیرونِ ملک موجود اثاثوں کا انجماد اور سفری پابندیاں شامل تھیں۔
ہفتے کو تنظیم کے وزرائے خارجہ نے مذکورہ پابندیوں کا دائرہ مزید 19 افراد تک وسیع کرنے کی منظوری دی جن میں شامی صدر کے بھائی مہر الاسد بھی شامل ہیں جو ملکی افواج کے سب سے طاقتور ترین دستے کے سربراہ ہیں۔
دریں اثنا شامی حزبِ اختلاف نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کے حامی دستوں کی جانب سے اتوار کو ملک کے مختلف حصوں میں کی گئی کاروائیوں اور فوج سے بغاوت کرنے والوں کے خلاف لڑائی میں کم از کم 35 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکومت مخالفین کے مطابق بیشتر ہلاکتیں وسطی صوبے حمص میں ہوئیں جو گزشتہ نو ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کا مرکز رہا ہے۔ ہلاکتوں کے ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
حزبِ اختلاف کے کارکنان کے مطابق سرکاری افواج نے معروف حکومت مخالف خاتون بلاگر رزان غزاوی کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔
غزاوی کو شامی-اردن سرحد کے نزدیک سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ آزادی اظہاری رائے کے موضوع پر عمان میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جارہی تھیں۔
شامی حکومت کا موقف ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہے جو حکومتی دعووں کے مطابق عام شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
حکومت مسلسل خبردار کرتی آئی ہے کہ شام میں کسی بھی قسم کی غیر ملکی مداخلت کی صورت میں پورا خطہ بدامنی کی لپیٹ میں آجائے گا۔