رسائی کے لنکس

شام: فوجی انخلا کے دعوؤں کے باوجود حملے جاری


شام کے سرگرم کارکنوں نے کہاہے کہ فوجی دستوں نے دومزید قصبوں پر حملے کیے ہیں اور منگل تک فورسز کی بڑے پیمانے پر واپسی کے آثار دکھائی نہیں دیے، باوجودیکہ کہ شام کی حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اقوم متحدہ کی حمایت سے طے پانے والے معاہدے کے تحت اس نے کچھ شہروں سے اپنے فوجی دستے نکالنے شروع کردیے ہیں۔

شام میں انسانی حقوق سے متعلق لندن میں قائم گروپ نے کہاہے کہ سرکاری فورسز نے وسطی شہر حما اور شمال مشرقی قصب میراح پر حملے کیے ہیں جب کہ حکومت مخالف تحریک کے مرکزی شہر حمص کے بعض حصوں پر مارٹر گولے گرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

تنظیم نے یہ بھی کہاہے کہ باغیوں نے ترک سرحد کے جنوب میں واقع دورافتادہ صحرائی قصبے مرقدہ کے نزدیک دو پڑتالی چوکیوں پر حملے کرکے چھ فوجیوں کو ہلاک کردیا۔

ماسکو میں شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے کہاہے کہ دمشق نے تشدد کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے سفارت کار کوفی عنان کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔

لیکن بظاہر ایسا دکھائی دے رہاہے کہ شام کے وزیر خارجہ نے یہ کہہ کر ایک نیا مطالبہ پیش کردیا ہے کہ فائربندی اور بین الاقوامی امن فوجیوں کی تعیناتی ایک ساتھ شروع کی جائے۔

ایک اور خبر کے مطابق کوفی عنان ترکی پہنچ گئے ہیں اور وہ شام سے ملحق سرحد کا دورہ کریں گے۔ اور ترک حکومت کے قائم کردہ پناہ گزین کیمپ کا معائنہ کریں گے جہاں پیر کو سرحد پار سے آنے والی گولیوں سے چھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔زخمیوں میں دو ترک باشندے بھی شامل ہیں۔

غیر مصدقہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ فائرنگ کے اس واقعہ میں دوافراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔

بشارالاسد کی وفادار افواج نے اسی روز لبنانی سرحد پر بھی فائرنگ کی جس سے ٹیلی ویژن کا ایک کیمرہ مین ہلاک ہوگیا۔

XS
SM
MD
LG