شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہناہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ملک کے شمال مغربی حصے کے دیہی علاقوں میں منحرفین کو کچلنے کی اپنی تازہ کارروائیوں میں ان پر فائرنگ کی ہے۔
شام کی حکومت ، پکڑ دھکڑ کی اپنی کارروائیاں بند کرنے سے متعلق عرب لیگ کی حالیہ اپیل کو مسترد کردیا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سرکاری فوجی دستوں نے بدھ کے روز ترک سرحد کےساتھ واقع ادلب کے صوبے میں کئی دیہاتوں میں پکڑ دھکڑ کی اپنی مہم کے دوران بھاری ہتھیار استعمال کیے۔
سرگرم کارکنوں کا کہناہے کہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں مواصلاتی رابطے کاٹ دیے، سڑکیں بند کردیں اور کئی افراد کو گرفتار کرلیا۔
شام کے سرکاری خبررساں ادارے ثنا نے کہاہے کہ عرب لیگ کے لیے شام کے سفیر یوسف احمد نے عرب تنظیم کے اس تازہ ترین بیان کو مسترد کردیا ہے جس میں ان کارروائیوں کو جارحانہ اور منفی قرار دیا گیاتھا۔
عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منگل کے روز قاہرہ میں ہواتھا جس میں دمشق سےفوری طورپر تشدد روک کر قومی سطح کے مذاکرات شروع مطالبہ کیا گیا تھا ۔ ثنا نیوز نے کہا ہے کہ شام کے سفیر نے اجلاس کو بتایا کہ ان کا ملک اصلاحات کے عمل کی جانب بڑھ رہاہے۔
شام کے انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے منگل کے روز دمشق کے مضافات میں جنازے کے ایک جلوس پر آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ جلوس میں شامل افراد چندر وز قبل فائرنگ میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
ثنا نیوز کے مطابق مسلح دہشت گردوں نے سات افراد کو ہلاک کردیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ سپاہیوں اور ایک عام شہری کو بدھ کے روز ادلب اور حمص کے صوبوں میں سپرد خاک کیا گیا۔ جب کہ وسطی شہر حما میں ایک بس ڈارئیور کو گھات لگا کر ہلاک کردیا گیا۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق شام میں گذشتہ چھ ماہ سے جاری شورش میں اب تک 2600 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام میں جاری مظاہرے صدر بشارالاسد کے گیارہ سالہ اقتدار کے خلاف ہیں۔
پیر کے روز شام کی حکومت نے تقریباً 1400 افراد کی ہلاکتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں سے نصف سیکیورٹی اہل کارتھے۔