رسائی کے لنکس

شام میں جاری بدامنی کے لبنان پر اثرات


شام میں جاری بدامنی کے لبنان پر اثرات
شام میں جاری بدامنی کے لبنان پر اثرات

سات ہفتوں سے مظاہرین شام کی سڑکوں پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے درجنوں افراد کو ہلاک اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ شام میں حکومت کی تبدیلی کے علاقے پر، خاص طور سے لبنان اور ایران پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

شام کا اثر و رسوخ شاید سب سے زیادہ یہاں لبنان میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، لیکن جب سے شام کی حکومت نے احتجاجیوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے، بیروت بالکل پْر سکون رہا ہے۔

حال ہی میں لبنان ، روس اور چین کی مدد سے ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے ایک قرار داد کو رکوانے میں پیش پیش تھا جس میں شام میں تشدد کی مذمت کی گئی تھی اور تفتیش کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بیروت میں ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر Houry Nadim کہتے ہیں کہ لبنان کا رویہ مایوس کْن تھا۔ ”سلامتی کونسل میں آج کل لبنان کی ایک نشست ہے اور اس نے لیبیا کی قرار داد کے معاملے میں بڑا سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس معاملے میں لبنان بالکل غیر جانب داراور خاموش رہا۔ اس پر مایوسی تو ہوئی لیکن حیرت نہیں ہونی چاہیئے کیوں کہ لبنان میں اب بھی شامیوں کا بہت اثر ہے۔“

لیکن لبنان کے اپنے بھی بعض مسائل ہیں۔جنوری سے وہاں کوئی حکومت نہیں ہے اور ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ جلد ہی تعطل ختم ہوگا اور نئی حکومت کی تشکیل ہو گی۔ جس گروپ کے ذمے نئی کابینہ کی تشکیل کا کام ہے وہ شام کا وفادار ہے جب کہ نئی حزبِ اختلاف مغرب کی حامی ہے۔

شام نے الزام لگایا ہے کہ مغرب کے حامی یہ عناصر، خاص طور سے نگراں وزیرِ اعظم سعد حریری کی تنظیم ’فیوچر موومنٹ‘ شام میں حکومت کے مخالفین کو فنڈز اور اسلحہ فراہم کر رہی ہے۔

حریری کے مشیرِ اعلیٰ محمد Chattah کہتے ہیں کہ یہ الزامات بالکل غلط ہیں۔ ”سچی بات یہ ہے کہ یہ الزامات خلاف ِ عقل ہیں اور نہ ان کا کوئی ثبوت ہے۔ ہم نے واضح طور سے ان کی تردید کر دی ہے۔ میرے خیال میں بہت کم لوگوں نے ا ن پر یقین کیا ہے۔“

اُنھوں نے مزید کہا کہ لبنان نے پوری کوشش کی ہے کہ شام کے داخلی مسائل میں نہ الجھے اور نہ یہ تاثر ملے کہ لبنان شام کے معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ ”بلا شبہ شام کی حکومت کو بعض مشکل فیصلے کرنے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے ہم نے خود کو ا س سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے، اس لیے نہیں کہ ہمیں دلچسپی نہیں ہے، بلکہ اس لیے کہ ہم ایسا کوئی اشارہ دینا نہیں چاہتے کہ لبنان شام کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔“

شام کے ساتھ لبنان کے تعلق کی بات کرتے وقت، حزب اللہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمینٹ میں اب حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت ہے اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب میں ان کا کردار فیصلہ کن تھا۔

بیروت میں امریکن یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر Khashan Hilal کہتے ہیں کہ حزب اللہ شام کے حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ ”حزب اللہ کا دل و دماغ ایران میں ہے۔ حزب اللہ کے پھیپڑے شام میں ہیں کیوں کہ حزب اللہ کی زندگی کا انحصار شام پر ہے۔نظریاتی اعتبار سے شام کی حکومت اور حزب اللہ میں کوئی مطابقت نہیں۔ لیکن دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔“

حزب اللہ کے دوسرے سرپرست ، ایران پر بھی شام کے واقعات کا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ لبنان کی امریکن یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر Salamey Imad کہتے ہیں کہ اگر شام کمزور ہوا، تو ایران بھی کمزور ہو جائے گا۔ ”اسٹریٹجی کے نقطہ نظر سے، شام ایران کے لیے بہت اہم ہے۔ اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے اور اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف کسی بھی اقدام پر جوابی کارروائی کے لیے۔ ایران اور شام کے اتحاد کے اثرات عراق کے سیاسی نقشے پر اور لبنان میں محسوس کیے جاتے رہے ہیں۔اگر شام کمزور ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ علاقے میں ایران کی پوزیشن بھی کمزور ہو جائے گی۔“

اگرچہ لبنان، حزب اللہ اور ایران پر شام کے واقعات کا براہ راست اثر پڑے گا، لیکن بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر Khoury Rami انتباہ کرتے ہیں کہ شام میں حکومت کی تبدیلی یا طویل عرصے تک جاری رہنے والے داخلی مسائل کے اثرات وسیع تر مشرق وسطیٰ تک پھیل سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ شام سیاسی اور سفارتی لحاظ سے علاقے کے ہر بڑے ملک کے ساتھ سرگرم ہے، اس لیے اگر شام میں کوئی بڑی تبدیلی آئی تو اس کے اثرات سارے علاقے میں محسوس کیے جائیں گے۔ Khouryاور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ بہت سی حکومتیں اس خیال سے ڈرتی ہیں کہ وہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں، اور یہ امید کر رہی ہیں کہ شام میں حالات پْر سکون ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG