حزبِ اختلاف کے خلاف جاری کاروائیاں روکنے کے لیے شامی حکومت پر عالمی طاقتوں کے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں پرتشددواقعات کا سلسلہ جاری ہے۔
شام کی صورتِ حال کی نگرانی کرنے والی حزبِ مخالف کی حمایتی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے ایک نمائندے نے منگل کو 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ شام کی سرکاری افواج نے دارالحکومت دمشق کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک کاروائی کے دوران 22 افراد کو سرِ عام پھانسی دیدی جب کہ 600 زائد افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ سرکاری افواج نے دمشق کے اس نواحی علاقے کا اتوار سے محاصرہ کر رکھا ہے جب فوجی دستے ٹینکوں کے ہمراہ علاقے میں داخل ہوگئے تھے۔
دریں اثنا اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں کے اس انکشاف کے بعد کہ شام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے براہِ راست احکامات صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے تھے، امریکہ اور جرمنی نے عالمی ادارے کی سلامتی کونسل پہ زور دیا ہے کہ وہ شامی حکومت کی کاروائیوں کے خلاف کوئی اقدام کرے۔
قبل ازیں شام میں جاری احتجاجی تحریک کے دوران انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے والے اقوامِ متحدہ کے کمیشن نے پیر کو الزام عائد کیا تھاکہ شامی افواج مخالفین کو پھانسی دینے، ان کی بلاامتیاز گرفتاریوں، جبری گمشدگی، تشدد اور جنسی جرائم کے ارتکاب کے علاوہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی ملوث ہیں۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شامی افواج اپنی کاروائیوں کے دوران اب تک 256 بچوں کو قتل کرچکی ہیں اور ان کے تشدد کا نشانہ بالغوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی بننا پڑ رہا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ کو اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور جنرل اسمبلی کے سامنے پیش کیا جائے گا جو شامی حکومت کے خلاف اگلے اقدام کا تعین کریں گے۔
دریں اثنا ترکی نے کہا ہے کہ اگر شام میں پرتشدد واقعات جاری رہے اور دمشق حکومت کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا نفاذ عمل میں آیا تو اس کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ سے ہونے والی تجارت شام کے بجائے عراق کے راستے سے کی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ ترکی اور شام نے 2009ء میں باہمی تجارت کے فروغ پر اتفاق کرتے ہوئے ایک دوسرے کے شہریوں کے لیے ویزا کی پابندی ختم کردی تھی۔