شامی حکومت کے مخالف دکانداروں نے اپنی دکانیں بند کر رکھی ہیں، اگرچہ ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ سیکورٹی فورسز نے ان کو سزا دینے کے لیے دکانوں کو آگ لگا دی ہے ۔عام ہڑتال سے جو اتوار کے روز شروع ہوئی ہے، صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف پُر امن مزاحمت کی مہم کا دائرہ اور وسیع ہو گیا ہے۔ گذشتہ نو مہینوں کے دوران، حکومت کے خلاف مہم مظاہروں ، اور احتجاجی مظاہروں تک محدود رہی ہے ۔
لیکن یہ عام ہڑتال ایسے وقت شروع ہوئی ہے جب اسد حکومت کے خلاف مسلح جد و جہد میں بھی تیزی آئی ہے ۔ دونوں گروپ متفق ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹا جانا نا گزیر ہے ۔
لیکن ان کے درمیان اختلاف اس بات پر ہے کہ یہ مقصد کیسے حاصل کیا جائے ۔ بعض ایسے وڈیو منظر ِ عام پر آئے ہیں جن میں عراق کی سرحد کے نزدیک درا کے علاقے میں جھڑپیں دکھائی گئی ہیں جب کہ حزبِ اختلاف کی فورسز نے اردن کی سرحد کے نزدیک جھڑپوں کی اطلاعات دی ہیں۔
چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے شامی فوج کو چھوڑ جانے والے سپاہیوں اور سرکاری فوجوں کے درمیان بھاری لڑائی کے مناظر دیکھے ہیں ۔ لیکن بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اب تک جو مسلح جدو جہد کی گئی ہے وہ خاصی محدود رہی ہے۔ جدہ میں گلف ریسرچ سینٹر کے چیئر مین، ڈاکٹر عبد العزیز ساگر کہتے ہیں کہ یہ جدوجہد اب تک فیصلہ کن مرحلے تک نہیں پہنچی ہے ۔
’’خانہ جنگی کے مرحلے تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر فوجی منحرف ہو جائیں اور اعلیٰ افسروں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ مل جائے۔ اب تک فوج سے بہت بڑی تعداد میں سپاہی الگ نہیں ہوئے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ ہلکے ہیں جیسے اے کے 47 اور ایسے ہی دوسرے ہلکے ہتھیار۔ یہ ہتھیار ٹینکوں اور بھاری فوجی گاڑیوں کے خلاف استعمال نہیں کیے جا سکتے۔‘‘
اگر مسلح جدوجہد سے مختصر مدت میں حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکتا، تو عام ہڑتال سے بھی یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ شام کے ہمسایہ ملکوں، لبنان اور عراق نے اسد حکومت کی حمایت کا مظاہرہ کیا ہے ، اور اگر سرحدوں کے پار اشیاء کی نقل و حرکت ممکن ہو، تو پھر نہ تو داخلی طور پر عام ہڑتال سے اور نہ بیرونی طور پر پابندیوں سے ، اقتصادی دباؤ مؤثر ہوتا ہے ۔
لیکن اگر سرحدوں پر نقل و حرکت آسان ہو تو مسلح مزاحمت میں بڑی مدد ملتی ہے ۔ حالیہ دنوں میں لڑائی میں تیزی، اور اس سے پہلے ترکی میں فوج چھوڑ جانے والوں کے اڈوں کے پاس اور دمشق کے نواح میں جو جھڑپیں ہوئی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ بھاری ہتھیار ان تک پہنچ رہے ہیں۔
قول و فعل کا فرق عرب لیگ کے اقدامات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ گذشتہ مہینے عرب لیگ نے بڑی سخت زبان استعمال کی تھی، اور قتل و غارت گری کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔ اب ایک مہینے بعد بھی ، یہ مکالمہ جاری ہے کہ شام ملک میں مانیٹرز کے داخل ہونے کی اجازت دے تا کہ وہ خود حالات کا جائزہ لے سکیں۔
عرب لیگ کے ارکان ہفتے کے آخر میں ایک بار پھر ملیں گے اور اس مسئلے پر توجہ دیں گے ۔ یونیورسٹی آف پیرس میں سیاسیات کے پروفیسر خاطر ابودیاب کہتے ہیں کہ عرب لیگ تیزی سے کوئی قدم اٹھاتے ہوئے ڈرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شام کے خلاف پابندیوں پر عمل درآمد سے، عرب لیگ کے ارکان کی اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچے گا ۔ اس کے علاوہ ، ان کا خیال ہے کہ لیگ کے ارکان اسد حکومت سے خوفزدہ ہیں۔ اس حکومت پر اقلیتی علویہ فرقے کا غلبہ ہے اور اس وجہ سے علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات پھیل سکتے ہیں۔
اسد مخالف تحریک میں بہت سے اختلافات کے باوجود، بیشتر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، اور بالآخر حزبِ اختلاف فتح یاب ہو گی۔ ان کی دلیل یہ ہےکہ اسد حکومت، سول اور مسلح بغاوت کا غیر معینہ مدت تک مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس دوران، شامی عہدے دار اپنا کام معمول کے مطابق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیر کے دن وہاں میونسپل انتخابات ہوئے ہیں، جب کہ سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔