شام میں امن و امان کی صورتِ حال بدستور کشیدہ ہے اور سرکاری عمارتوں اور اہلکاروں کو بم حملوں کا نشانہ بنانے کی کاروائیوں میں تیزی آگئی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شام کے شمال مغربی شہر اِدلب میں سیکیورٹی فورسز کے دفاتر کے نزدیک ہونے والے دو بم دھماکوں میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیمون رائٹس' کے مطابق پیر کو ہونے والے ان بم دھماکوں میں شامی فوج اور فضائیہ کے انٹیلی جنس اداروں کی عمارات کو نشانہ بنا یا گیا ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنعاء' نے دھماکوں کو خود کش حملے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں کم از کم نو افراد ہلاک جب کہ 100 زخمی ہوئے ہیں۔
اس سے قبل جمعہ کو دمشق میں ہونے والے ایک کارسوار خود کش بمبار کے حملے میں کم از کم نو افراد مارے گئے تھے جن کی اکثریت سیکیورٹی اہلکاروں پر مشتمل تھی۔
شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے حملوں کی ذمہ داری حسبِ سابق "مسلح دہشت گردوں" پر عائد کی تھی۔ واضح رہے کہ شامی حکومت یہ اصطلاح گزشتہ 13 ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے والے باغیوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔
تاہم حزبِ اختلاف نے بم دھماکوں کی حالیہ لہر کا الزام حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد حزبِ مخالف کی قوتوں کو بدنام کرنا ہے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ادلب میں پیر کو ہونے والے بم دھماکوں کے بعد اقوامِ متحدہ کے کئی مبصرین نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کے غیر مسلح فوجی مبصرین کی ایک محدود تعداد نے رواں ماہ شام میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ یہ مبصرین شامی حزبِ اختلاف اور صدر بشار الاسد کی حکومت کے درمیان عالمی کوششوں کے نتیجے میں طے پانے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لیں گے۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے مشن کی قیادت ناروے کے ایک فوجی جنرل رابرٹ موڈ کو سونپی گئی ہے جنہوں نے گزشتہ روز دمشق پہنچنے کے بعد اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔