شام میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری ہے اور شامی افواج کے ٹینک شمالی صوبہ اِدلب میں داخل ہوگئے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کئی ٹینک صوبہ ادلب کے راما نامی ایک گاؤں میں منگل کی شب داخل ہوگئے جس کے بعد علاقے سے مزید کئی افراد ترکی کی جانب نقل مکانی کر گئے ہیں جہاں پہلے ہی ہزاروں شامی باشندے پناہ گزین ہیں۔
اس سے قبل منگل کے روز روسی سفارت کار میخائل مارگیلوف نے کہا تھا کہ ماسکو چاہتا ہے کہ شامی حکومت ملک میں "حقیقی" اصلاحات نافذ کرتے ہوئے "تشدد کا سلسلہ بند کرے"۔
روسی سفارت کار کا کہنا تھا کہ ان کا ملک شام کی صورتِ حال کے بارے میں "سخت تشویش" کا شکار ہے اور نہیں چاہتا کہ شام بھی لیبیا کی طرح خانہ جنگی کا شکار ہو۔ واضح رہے کہ روس سوویت دور سے ہی شام کو ہتھیار فراہم کرنے والا ایک اہم ملک ہے۔
اس سے قبل روس شامی حکومت کی جانب سے مخالفین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی مذمت میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے قرارداد منظور کرانے کے لیے کی جانے والی مغربی ممالک کی کوششوں کو مسترد کرچکا ہے۔
گزشتہ ہفتے روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ شام کی حزبِ مخالف کو صدر بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ مجوزہ اصلاحات پر مذاکرات کرنے چاہئیں۔
دریں اثناء شامی حزبِ مخالف کے جلاوطن کارکنان کے ایک گروپ نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ شامی حکومت کی جانب سے گزشتہ تین ماہ سے جاری کریک ڈاؤن روکنے کیلیے صدر بشار الاسد پر دباؤ ڈالے۔