شام کی حکومت نےاِس بات کی تردید کی ہے کہ جمعے کے دِن ہولا کے قصبے میں اُس کے فوجیوں نے کم از کم 92افراد کا قتل عام کیا، جس میں سے ایک تہائی بچے ہیں۔
وزارت ِخارجہ کے ترجمان، جہاد مقدسی نےاِن الزامات کو شامی حکومت کے خلاف ’جھوٹ کی سونامی‘ قرار دیا۔ اس کے برعکس، اُنھوں نے شدید طور پر مسلح ’دہشت گردوں‘ پر الزام عائد کیا، جنھوں نے، اُن کے بقول، فوجیوں پر حملہ کیا۔
اقوام متحدہ کے مبصرین نے کہا کہ ہولا پر حملوں کے لیے بکتر بند گاڑیوں اور توپ خانے کا استعمال کیا گیا، جو قصبہ حمص کے وسطی شہرکے شمال مغرب میں واقع ہے۔
مقدسی نے کہا کہ فوجی اپنی پوزیشنوں کا دفاع کر رہے تھے، لیکن اُنھوں نے اِس بات کو مسترد کیا کہ واقع میں بکتر بند گاڑیاں اور توپ خانہ استعمال ہوا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ہولا کا قتلِ عام تقریباً15ماہ سےحکومت شام کے خلاف جاری بغاوت کےدوران ہونے والا سنگین ہلاکت خیز حملہ تھا۔
عرب اور مغربی حکومتوں نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں، جن میں صدر بشار الاسد کی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔
تشدد کے اِن حالیہ واقعات کے باعث اپریل میں حکومت مخالف باغیوں اور شامی حکومت کے مابین ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں مزید سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
باغیوں کی ’فری سیریئن آرمی‘ نے متنبہ کیا ہےکہ اگر شہریوں کو تحفظ فراہم کرنےکے لیےبین الاقوامی برادری کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتی، تو وہ اقوام متحدہ کے توسط سےعمل میں آنے والے امن منصوبے پرعمل پیرا ہونے کے پابند نہیں ہوں گے۔