اقوام متحدہ کے ایک سینیر عہدے دار نے کہا ہے کہ شام کے شمالی صوبے ادلب میں پھنسے ہونے لاکھوں شہریوں کو بچانے کے لیے ایک منصوبہ ترتیب دیے دیا گیا ہے جب کہ جنگ کو بڑھنے سے روکنے کی سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔
شام کے تنازع کے لیے اقوام متحدہ کے علاقائی کوآرڈی نیٹر نے کہا ہے کہ انہوں نے جنیوا میں انسانی ہمددردی سے متعلق ٹاسک فورس کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ان ملکوں سے ادلب کے شہریوں کو بچانے کی اپیل کی ہے جن کا وہاں اثر و رسوخ ہے۔
پینوس مومسز نے کہا ہے کہ انہیں روس اور امریکہ کی جانب سے، جنہوں نے اجلاس کی مشترکہ صدرات کی، یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ہر کوئی پر امن طور پر آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈنے کا خواہش مند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پرامن حل پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ٹاسک فورس کے ارکان متعدد بار مل چکے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کوششوں میں روس اور امریکہ کا کردار اہم ہے۔
تقریباً 30 لاکھ عام شہری ادلیب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اب کہیں بھی نہیں جا سکتے کیونکہ ان کے باہر نکلنے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ادلیب میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا نتیجہ اس صدی کے بدترین قتل عام کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔
ستمبر کے آغاز سے شام اور روسی فورسز نے فضائی حملوں اور توپ خانے کی گولہ باری میں اضافہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اور اس دوران کئی اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو اب کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔
اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ادلیب کی 30 لاکھ کی آبادی میں سے 20 لاکھ سے زیادہ افراد کو انسانی ہمددردی کی امداد کی ضرورت ہے۔